نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرد آہن، صدر ترکی رجب طیب اردوغان کے نام ایک خط







مرد آہن، صدر ترکی رجب طیب اردوغان کے نام ایک خط
باعث صد افتخار،ملت اسلامیہ کے بطل عظیم رجب طیب اردوغان ادام اللہ ظلکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم تیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے لئے یہ خبر مسرت آمیز اور امید افزا نیزقابل فخر ہے کہ آپ اپنے قدوم میمنت سے بھارت کی سرزمین کو سرفراز فرمارہے ہیں یہ وہی سرزمین ہے جہاں ملت اسلامیہ کی سلطنت اور فرماں روائی کی زریں تاریخ ابد تک کیلئے زندہ ہے۔یہ وہی سرزمین ہے جہاں محمد بن قاسم سے لیکر اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ تک کے حکمرانوں کے عدل و انصاف اور سنت فاروقی کی داستان فضاؤں میں باز گشت کر رہی ہے۔آپ جیسے نباض قوم و ملت اس پہلو سے ناواقف نہ ہوں گے کہ بھارت ملت اسلامیہ کے عہد رفتہ کی زندہ تاریخ ہے؛لیکن جب قوم آپسی انتشار اور باہمی جدل میں الجھ جاتی ہے تو قدرت اسے عبرت کا نشان بھی بنادیتی ہے اور بعینہ یہی کچھ قدرت نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ہم کل جو دوسری قوموں کو پناہ دیتے تھے آج خود دوسروں سے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ امام الہند مولانا آزاد علیہ الرحمہ کی پیشن گوئی حر ف بہ حرف پوری ہوگئی کہ ہم ایک ہندوراشٹر میں جینے پر مجبور ہیں۔میر تقی میر نے بہت پہلے کہا تھا وہ معجزانہ شاعری یہاں صادق آگئی
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
آپ جیسی نباض شخصیت اس بات سے بھی واقف ہوگی کہ آج جس شہر میں آپ کا سرکاری سطح پر استقبال کیا گیا ہے اس شہر کا ذرہ ذرہ مغلیہ شان و سطوت کا گواہ ہے۔یہ وہی شہر ہے جس کی شان میں اردو کے معروف شاعر اور مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں روا بہادر شاہ ظفر کے استاد سخن حضرت ذوق نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا ”کون جائے ذوق دلی کی گلیاں چھوڑ کر“ لیکن قدرت نے پھر وہ تماشہ بھی دکھایا کہ ان حاکم افراد کو ”دلی کی گلیاں“خالی ہاتھ چھوڑنا پڑیں۔ آپ اس وقت ”عالم انتخاب“ شہر دہلی میں مہمان ہیں،ذرا ایک نظر عظمت رفتہ کی خاموش داستاں گو لال قلعہ اور جامع مسجد کی دیوار و فصیل پر بھی ڈالیں،یقینا لال قلعہ اور جامع مسجد کی خاموش پکار، المناکی اور تڑپ آ پ جیسے عظیم رہنما کو ڈھونڈ رہی ہے اور ہم تیس کروڑ بے مایہ،نہتے اور لاغر مسلمانوں کو مسلسل پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری عظمت رفتہ پر آنسو نہ بہا کر زیست آئندہ کی بنیاد کھڑی کرو؛لیکن نہ ہاتھ کو سکت ہے اور نہ ہی زبان میں وہ طاقت گفتار ہے کہ منتشر حواس کو مجتمع کر سکیں۔لال قلعہ کی فصیل کراہ رہی ہے اور کسی پیشوا ئے عظیم کی راہ دیکھ رہی ہے،اے کاش! کرم خداوندی جوش میں آئے۔فلک بوس قطب مینار جو گردوں سے محو گفتار رہتا ہے اور اپنی اس اداسی اور بے رونقی پر ماتم کناں ہے اس سے ذرا یہ پوچھ لیں کہ یہ کیفیت کیوں کر ہے؟ یہ سب کچھ بتائیں گے اپنے جرم اور اس جرم کی پاداش میں سزائیں شمار کرائیں گے؛ لیکن ”متاع تیموری“ کے گمشدگی کی یہ سزا ملی کہ رحمت خداوندی متحرک نہ ہو ئی اور چشم بھی پر نم نہ ہوسکی۔سنا ہے کہ معروف ملی دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اپنے قدم میمنت سے سر فراز فرمائیں گے،سڑک سے گذرتے ہوئے ایک نظر مجمع عام کو بھی دیکھ لیں،چہروں سے خوف،ہراس،پژمردگی اور اضمحلال کو محسوس کرنے کی کوشش کیجئے گا،مجھے امید ہے کہ آپ ان کیفیات کو محسوس کئے بغیر نہ رہ پائیں گے کہ اب یہ بے دست و پا تیس کروڑ مسلمان کس قابل رحم صورتحال سے گذر رہے ہیں۔شب جہاں الم نواز ہوتی ہے تو دن الگ ستم رسا ہوتا ہے کبھی شرک پرمجبور کیا جا رہا ہے تو کبھی آفاقی قانون کی تردید میں تمام شیطانی قوتیں صرف کی جا رہی ہیں تاکہ یہ بے دست و پا قوم اپنے دین و ایمان سے بھی برگشتہ ہوکر فنا ہوجائے۔ جمہوری آئین اور دستور میں مقررہ حقوق کے باوجود جب یہ کہا جاتا ہے یونیفارم سول کوڈ کے مطابق زندگی گذارنی ہوگی تو اپنی بے بسی اور کم مائیگی پر آنکھیں یک لخت اشکبار ہوجاتی ہیں اور گلا رندھ جاتا ہے۔ کبھی ہماری حیثیت اور ہمارے وجود کو کالعدم قرار دینی کی کوشش ہوتی ہے تو کبھی ہم سے ووٹ دینے کے اختیارات بھی سلب کئے جانے کی بھی آواز اٹھائی جاتی ہے۔کتنے ایسے نعرے اور بیانات ہیں کہ جو از خود جمہوریت کا راگ الاپنے والے کیلئے باعث شرم ہیں؛لیکن انہیں ایسی باتیں کرکے فخر محسوس ہوتا ہے۔جو کبھی یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کیلئے بوجھ ہیں انہیں شاید ہماری خدمات کا علم نہیں ہے،جو یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو ریزرویشن دیا گیا تو پھر نئے پاکستان کے قیام سے کوئی روک نہیں سکتا تو ان کی برہمنی اور دیومالائی فطرت پر افسوس ہوتا ہے۔ان کے علاوہ ایسی ہفوات اور ہذیان ہیں کہ جنہیں سنا کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ جمہوریت کے خودساختہ ٹھیکیدار جب محمداخلاق، نعمان اور پہلو خان جیسے نہتے کو جانوروں کے تحفظ کے تحت محض شک کی بنیاد پر پیٹ پیٹ کر شہید کردیں تو بھلا ایسوں سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے ـ ہم اپنی روداد الم سنا کر آپ جیسی معزز اور مشفق ہستی کو رنجیدہ کرنے کی گستاخی نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ ہم نے ایلن کی لاش دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں اشک دیکھے ہیں، جب ایک بہن نے یہ دعا کی تھی کہ "اے اللہ ہمیں اور ہمارے ملک کو مخلص قائد اور کارکنوں سے محروم نہ کرنا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے جب کہ ان آنکھوں میں ملت مرحومہ کی بلندی اور اقبال کے خواب ہونے چاہیے تھے ـ آپ نرم دل اور قرآنی حکم ”واخفض جناحک للمؤمنین“ کی عملی تفسیر ہیں ـ ستم ہائے روزگار برداشت کرنے اور اغیار کی دشنام طرازی سننے کیلئے ہمارا وجود اور ہماری بے مایہ ہستی کافی ہے،آپ قوم کو رہنما خطوط کی رہنمائی کریں۔جب ہم تمام دنیا اور اپنے قائدین سے مایوس ہوجاتے ہیں تو آپ کی مسحور کن شخصیت میں ہمیں اور ہمارے متزلزل قدموں کو استقلال وعزم کا سبق اور صبر کی تلقین نظر آتی ہے۔ آپ کی ہستی ملت کیلئے،دین حنیف کیلئے،شریعت محمدی ؐ اور اس قابل رحم حال قوم کیلئے نعمت عظمی ہے۔آپ جس وقت آہ سحر گاہی کیلئے بیدار ہوں گے تو اس وقت دہلی کی فضا رقصاں ہوگی اور نسیم صبح لال قلعہ کی فصیل سے آ آکر آپ کا استقبال کریں گی اور ہزار سال قبل کی وہی نسیم صبح آپ کے جلو میں ہوں گی جو اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے جلو میں رہا کرتی تھی۔آج روح عزنوی کس قدر شرسار ہوگی،مستی عالمگیری بھی قابل دید ہوگی اور بہادر شاہ ظفر کی مضطر روح جنہیں ”دو گز زمیں“ بھی ”کوئے یار“ میں نہ ملی آپ سے بے تابانہ لپٹ کر دہاڑیں مار کر رو رہی ہوں گی کہ اے کاش آپ جیسا پیشوا اس وقت کیوں نہ پیدا ہوسکا؟آپ شاید ناراض نہ ہوجائیں کہ آپ ہمارے گھر تشریف لائیں ہیں؛لیکن پرشکوہ سلطنت اسلامیہ کاکوئی فرد آپ کے استقبال کے لئے بھی نہیں آیا، کوئی آ بھی کیسے سکتا ہے؟ ذرا اپنے مشرقی سمت دیکھیں ظل سبحانی نصیرالدین ہمایوں ہیں جو اپنے ساتھ تمام جلالت و شان کے ساتھ بیاباں میں محو خواب ہیں،قطب مینار کی بلندی و عظمت کو دیکھئے استقبال کیلئے حاضر نہ ہونے کی وجہ بتائے گی۔لال قلعہ کی خاموشی اور در و دیوار کی سرخی سے پوچھئے کہ ہم کیوں نہیں آپ کے استقبال کو آ سکے؟شکایت نہ کیجئے گا کہ ہماری خاطراور تواضع دہلوی ضیافت کے شایا ن شان نہیں کی گئی ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے سوائے حرف آہ اور سسکیوں کے اور جو کچھ باقی بھی ہے وہ صرف داستان پارینہ ہے اور ان داستانوں میں چیخ و پکار اور صدائے شور ہے!! ہم اپنے مہمانوں کا استقبال آہ و صدا اور نالہ و فغاں سے نہیں کرسکتے؛لہذا ہماری اس غیر حاضری کو معاف کیجئے گا۔ تہجد کا وقت ہورہا ہے،روح اکابر آپ کو نیند سے بیدار کرے گی کہ ”اٹھو اردوغان!نماز بندگی وعاشقی ایک ساتھ صف بہ صف ادا کرلیں شاید ہمیں پھر یہ حسیں موقع نہ ملے۔ یہاں قونیہ کے مرشد کامل رومی تو نہیں ہیں؛ لیکن محبوب اولیاء سلطان الہند حضرت نظام الدین اولیا ضرور ہیں یہاں محبوب اولیاء کی "ضرب اللہ ھو " کی باز گشت ضرور ملے گی ـ جامع مسجدسے متصل آسودہ خاک حلاج منصور ثانی صوفی سرمد شہید کی فنائیت اور جذب ضرور ملے گا ـ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی مست خرامیاں ہوں گی، ملا جیون علیہ الرحمہ اور محدث کبیر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے فرزندوں کا تبحر علمی اور علمی، مذہبی و معاشرتی خدمات ضرور ملیں گی ـ ـ سبھی آپ کے منتظر ہیں کہ آپ ان کے ساتھ مل کر آہ سحر گاہی کی لذت کام و دہن سے آشنا ہوں، جب آپ اس سرزمین پر خالق حقیقی کے سامنے سر بسجود ہوں گے تو آپ کی حس ان معزز ہستیوں کی جلوہ فروشیاں محسوس کرے گی ـ آپ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ اس قبولیت کی گھڑی میں ہم تیس کروڑ بے مایہ افراد کہ جن کے رہبر اور پیشوا اس نامساعد حالت میں بھی مصلحت کے شکاراور خواب خرگوش میں مبتلا ہیں،کو بھول نہ جائیے گا۔ہم آپ کی دعاؤں کے طلب گار ہیں۔ ہم بے نواؤں کی دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی عمر میں مزید برکت دے اور قوم و ملت کی بیش بہا خدمات لیتا رہے، آپ کی سدا حفاظت فرمائے اور آپ کے جانشین سے ملت کو محروم نہ رکھے ـ آمین
ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد
آپ کا ایک مخلص نیاز مند
افتخار رحمانی،نئی دہلی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق