نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا!

تسنیم کوثر



 بھارت کا مسلمان آج جس کسوٹی پر کس کر  حب الوطنی  کے نام نہاد  نعرہ پر اپنے ہی ملک میں جان ہتھیلی  پر لئے پھر رہا ہے یہ کسی سنگھی  یا  بی جے پی کے سورما  کا کیا دھرا نہیں  بلکہ اسی کانگریس کا گڑھا  مفروضہ ہے جس کانگریس کی مسلمان آج بھی  اپنے خون سے آبیاری کر رہے ہیں ۔چیر پھاڑ کئے بغیر زخم ٹھیک نہیں ہوں گے۔ لیجئے  گجرات میں شنکر سنگھ واگھیلہ  نے اپنا بوجھ اتار پھینکا۔گجرات میں كکانگریس کا جو حال ہونے والا ہے اس پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئےکہ کانگریس کا قیام شروع دن سے جس مقصد کے لئے کیا گیا تھا وہ آج ملک کے تمام فیصلہ ساز اداروں پر آر ایس ایس کے لوگوں کے قبضے نے ثابت کر دیا ہے۔ اس ملک میں  اب تک جتنے فساد ہوئے کسی ایک  مجرم کو پھانسی نہیں ہوئی ۔لاکھوں  قتل ہوئےکروڑوں  در بدر۔آج   اسی گجرات کو لیجئےاحسان جعفری کے ساتھ ساتھ 5000 مسلمانوں کی قربانی ان ہی دونوں پارٹیوں کو زندہ رکھنے کے لئے دی جا چکی ہے اور آج بھی مسلمان ہے کہ آنکھ پر پٹی باندھ کر پانی پلا کر اس پارٹی کو زندہ رکھنے کے فراق میں ہے۔ شنکر سنگھ واگھیلا نے جن سنگھ سے اپنا کیرئر شروع کیا تھا پھر جنتا پارٹی پھر بی جے پی پھر کانگریس۔ ان کو بی جے پی سے کانگریس میں ارجن سنگھ لائے تھے تب ان کو وزیر اعلی بننا تھا  انہوں نے اپنی پارٹی  بی جے پی چھوڑی  اسکو توڑا  کانگریس کی کمان سنبھالی اور وزیر اعلی کا  عہدہ سنبھالا آج بھی ان کا یہی ایجنڈا ہے۔ خبریں ہیں کہ این  سی پی ، جے ڈی یو اور ھاردک  پٹیل، الپیش ٹھاکر اور جگنیش میوانی کسی ممکنہ گٹھ بندھن کی قطار میں ہیں ۔ ان ابھرتے ہوئے رہنماؤں کی بالترتیب پاٹيدارو، ٹھاکر اور دلت کمیونٹی میں اچھی دھاک ہے۔بی جے  پی  کو کییشو بھائی کا ساتھ تو ہے لیکن  انکے لئے مارگ درشک منڈلی کے دروازے کھلے ہیں ابھی چاہئے ایک فعال لیڈر۔ہو سکتا ہے تیسرا مورچہ بنا کر واگھیلا جی اپنے لنگوٹئے  مودی جی سے کوئی سودا کر  لیں ۔سماجی کھچڑی کو سمجھا جائے تو وہ کچھ ایسے ہے کہ  بخشی کمیشن نے گجرات میں سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ کمیونٹیز کی شناخت کر کے 1970 کی دہائی میں دیگر پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا۔اس میں پاٹيدار شامل نہیں تھے، جن کاسماجی دبدبہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔چھتریہ کمیونٹی کو ریزرویشن کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد پٹیلوں نے ریزرویشن تحریک شروع کی۔ تب گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اصل پٹیلو ں کی پارٹی مانی جاتی تھی ووٹوں کا حصہ ( مشرق میں 30 فیصد) کے لحاظ سے کانگریس کا بھی ریاست میں اچھا حصہ ہے اور یہ ریاست میں بنیادی طورپر چھتریوں کی پارٹی مانی جاتی ہے پاٹيداروکی ناراضگی اس بات کو لے کرزیادہ تھی کہ ان کی جگہ نچلی ذاتوں کو دے دی گئی ہے۔ گزشتہ دو سال سے ھاردک پٹیل پاٹيدارو ں کےلیڈر کے طور پر ابھرے ہیں  اس  تنا زعے میں آنندی بین کی کرسی جا چکی ہے۔ھاردک پٹیل کو مودی کے خلاف کئی ریاستوں کے علاقائی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ بی جے پی کے لئے مصیبت بن سکتی ہے اسی کی کاٹ کے لئے بی جے پی کو ایک قد آورپاٹيدار رہنما کی ضرورت ہے۔ستم بالائے ستم  یہ کہ شیوسینا پہلے ہی ھاردک پٹیل کو لے ا ڑی ہے ۔ شو سینا اور بی جے پی کے درمیان تلخی اب ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے سامنا میں اداریہ آیا  کہ گوشت پر قومی پالیسی واضح کریں وزیر اعظم مودی۔ گورکشا کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے، لوگوں کا قتل کرنا ہندوتو کے اصولوں کے خلاف ہے، جو لوگ کل تک گایوں کی حفاظت کر رہے تھے وہ ہندو تھے لیکن آج وہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ لیکن اب بھی پورے پتے کھلنے باقی ہیں ۔ یہ بھی یاد رکھيے کہھاردکپٹیل بی ایم سی انتخابات میں شیوسینا کے امیدوار کے لئے  الیکشن کیمپین کر چکے ہیں ابھی کچھ دن گزرے امرناتھ مسافروں پر حملے کے بہانے شیوسینا نے شدید حملہ بولا ہے۔ شیوسینا پارٹی سربراہ ادھو ٹھاکرے نے مشورہ دیا ہے کہ گورکشکو کو دہشت گردوں کا سامنا کرنا چاہئے۔ادھو نے اپنی تقریر میں دو ٹوک کہا کہ گورکشا کے نام پر ملک میں ڈھکوسلہ چل رہا ہے۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا مذہب اور سیاست اب ایک ساتھ نہیں چل رہی؟ کوئی اب اس پر کیوں نہیں بولتا؟ یا یہ کہیں کہ اگر دہشت گردوں کے پاس اسلحہ نہ ہوکر گوماس ہوتا تو کوئی دہشت گرد زندہ نہ بچتا؟ مسلمان تو بس بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی طرح بہار بنگال اور گجرات میں ناچتا پھرے گا کیونکہ  اسکی  رسی  کانگریس نے تھام رکھی ہے جس نے اسکو نہ تین میں نہ تیرہ  میں رہنے دیا ۔سیکیولر ازم کا ڈھول الگ سے گلے میں ڈال دیا …… مبارک  باد  اندرا جی  آپ  نےجے پی اور مرارجی کو جس پالیسی سے ایک ساتھ سادھ لیا تھا،وہ آج بھی کام کر رہی  ہے ۔تاریخ گواہ ہے اس کانگریس نے اپنے آپس کے جھگڑوں میں ایک دوسرے کے سیاسی مفاد سادھے ہیں گرم کانگریس اور نرم کانگرس کو 1907 سے پڑھئے۔ آپ باپ باپ چلاتے رہے وہ ماں ماں-
یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق