نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں!


لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں!
برجستہ: افتخاررحمانی 
ملک کو آزاد ہوئے تقریبا سات دہائی گذر چکی ہے اور ملک میں اب بھی ایک معتد بہ طبقہ خوف وہراس اور زیاں نفسانی کے ماحول میں گذران زندگی پر مجبور ہے جب کہ آئین میں اس مقہور طبقہ کے تحفظ کی فراہمی کیلئے تمام شقیں موجود ہیں اور اس کو یقینی بنانے کیلئے تمام کوششوں کو بھی لازمی تصور کیا گیاہے؛ لیکن ان تمام امور کے تیقن کے باوجود تشنہ لبی یہ ہے کہ ان سے یکسر تغافل کیا جاتا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف بر سراقتدار طبقہ ہی ان امور کو ملحوظ رکھے یا پھر جن کے لئے یہ حقوق وضع کئے گئے ہیں وہ بھی اتلاف حقوق پر صدائے احتجاج بلند کریں،شاید یہ ہماری بھول ہے یا پھر ہماری معصومیت کہ ہم اشکبار ی تو جانتے ہیں؛ لیکن ردعمل کی کوششوں سے گریز کرتے ہیں دراں حا لیکہ ہم ان سے واقف بھی ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ سعی پیہم سے اجتناب کرتے ہیں؟ یہ سوال نہیں ہیں؛ بلکہ ہمارے لئے یہ تازیانے ہیں؛ کیونکہ جب کوئی قوم خود کو قعر مذلت میں دھکیل دے تو سوال ان کیلئے تازیانہ ہوا کرتا ہے۔ ہم تو اغیار کے ظلم و ستم پر اشکباری کرتے ہیں؛ لیکن خود کو مین اسٹریم سے اس طرح مستثنی قرار دیا ہے گویا وہ ہمارے لئے ایک شجر ممنوعہ ہو، اگر ہم نے ان کی طرف التفات بھی کی تو پھر اس کا سخت مواخذہ کیا جائے گاجب کہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ کن کن لٹتی ہوئی متاع زیست کا مرثیہ پڑھا جائے؟ صرف تعلیم اور اتحاد کیلئے نعروں کا بلند کرنا ہی اس ذیل میں کافی نہیں ہے؛ بلکہ اس طرف بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے حکومت و اقتدارمیں کتنی فیصدی شراکت کویقینی بنایا؟ مولانا آزاد کی کوششیں اور طویل سیاسی تجربہ بھی مسلمانان ہند کو بدلتے حالات کے ادراک کی قوت بخشنے میں کامیاب نہ ہوسکی،تفاعل کی ناکامی محض شبہات تھے جن کا ذکر بار بار مولانا آزاد کیا کرتے تھے؛ کیونکہ اس قوم نے ہمیشہ قائد کی مخالفت میں کامرانی تصور کیا جب کہ سقوط دہلی اور سقوط ڈھاکہ کی خونیں یادیں اب بھی دل،دماغ اور تاریخ کے سیاہ صفحات میں خوں فشار عبارتوں کے ساتھ درج ہیں۔
ملک میں بھگوا سازشیں دن بدن عروج پر ہیں،سوشل میڈیا کے ذریعہ اس مبینہ سازش کو فروغ دیا جاتا ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ملک میں صرف ہم یعنی مسلمان ہی نشانے پر نہیں ہیں؛ بلکہ دوسری اقلیت سکھ،عیسائی،دلت اور بدھسٹ بھی اس کے نشانے پر ہیں جیسا کہ اکثر اوقات کسی نہ کسی فیس بک،ٹوئٹر لنک یا ویب سائٹ لنک کے ذریعہ انکشاف ہوتا ہے۔ جب کہ سیکولر اور لبرل موم بتی فوبیا بار بار یہی کہتا ہوا آ رہا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں ان کے نشانے پر ہیں؛ بلکہ ملک کا آئین بھی ان انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے جو بار بار آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ یہ ان کی بھی بھول ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کا آئین انتہا پسندوں کے نشانے پرہے،حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک میں صرف ایک مخصوص طبقہ نشانے پر ہے؛ کیونکہ یہ طبقہ تمام اقوام و ملل کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے خواہ وہ بھارت کا سیکولر طبقہ ہو یا امریکہ و یورپ کے نام نہاد حقوق انسان کے علمبردار، اپنی تحریر و تقریر میں وہ تو ان کے تلف شدہ حقوق کے خلاف خیالات کا اظہار کرتے تو ہیں؛ لیکن جب ان سے مکمل یازیابی کیلئے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے توکلیۃً احتراز کر جاتے ہیں،واضح ہوا کہ ان کا مبینہ عمل نفاق پر مبنی تھا۔ہر طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں،سنگھ پریوار جو ازل سے ہی انسانیت اور جمہوریت کا بدترین دشمن رہا ہے وہ اب کھل کر سامنے آچکا ہے حتی کہ اس کی نفرت اور مبینہ انتہا پسندی دیکھئے کہ تاج محل جو محبت کی نشانی تھی وہ یوپی ٹورزم بک سے ندادر ہے، البتہ قدیم برہمنی مندروں کو اس میں جگہ دی گئی ہے،میڈیا بھی اس کے اشاروں پر ”رقص شرر“ میں کامیابی خیال کر رہا ہے، انتظامیہ بھی اس کے معاون ہے اور عدلیہ بھی اس کے مکروہ افکارمیں ضم ہوچکی ہے ان شرارتوں اور سازشوں کو زمین بوس کرنے کیلئے ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟ جب کہ ہمارے پاس نہ تو قوت عمل کی طاقت ہے او رنہ ہی جد و جہد کی خاطر سینہ شاہین و شہباز!کیا ان حالات سے سمجھوتہ کرکے حالات کے ہاتھوں زخم خوردگی کیلئے خود کو چھوڑ دیا جائے؟ العیاذ باللہ! اسلامی کی پوری تاریخ ہی جد و جہد اور قربانیوں سے معمور ہے،ہماری قربانیوں کی داستان غزوہ بدر سے شروع ہوتی اور تاحال قربانیوں کاسلسلہ چل رہا ہے کیاکبھی اسلامی تاریخ نے ہمیں بزدلی اور پست ہمتی کاسبق دیا ہے؟ اقبال ؔ نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ دنیا مردان جفا کش کیلئے تنگ نہیں ہے،تنگ تو بزدلوں کیلئے ہے ان کو حالات کی سراسیمگی رنج نہیں پہنچا سکتی جو حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ عزم بیدار رکھنے والوں کو طوفان کے جھکڑ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جنہوں نے کل طوفان کا رخ موڑا تھا آج ان کے متبعین طوفان کے سامنے خم ہوجائیں یہ ان کے لئے کسی تباہی کا بدترین عندیہ ثابت ہوگا۔کل جس قوم کے جرنیل نے711م کے سال میں لائنز راک موجودہ جبل الطارق اور اب بگڑی ہوئی شکل جبرالٹر کے مقام پر کھڑے ہوکر عزم و ہمت کی نئی روح پھونکی تھی اس قوم کے افراد اتنے بزدل ہوگئے کہ وہ حالات سے سمجھوتہ کرکے حالات کے ہاتھوں رکھیل بن جائیں؟ ٹھیک اسی سال اسی ہندوستان میں محمد بن قاسم نے 711م نے ظلم و ستم اور استبداد کی جڑیں کھوکھلی کرکے اسلامی اخوت و مروت کی نئی روح پھونک دی تھیں گرچہ طارق بن زیاد کے عزم و ہمت کی اس داستان کو 3جنوری 1492کے دن گرہن لگ گیا جب ابو عبداللہ نے فرڈی نند شاہ قسطلہ کو قصرالحمراء کی کنجیاں سپرد کی تھی اور پادری بشمول عیسائی عوام قصر الحمرا ء کے میناروں سے صلیب بلند ہونے کا انتظا ر کر رہے تھے اور ٹھیک ہندوستان میں بھی بہادر شاہ ظفر کو انگریز لعین ہڈسن نے تیموری فرزندوں کو ذبج کرکے دستر خوان پر سجایا تھا،انگریز عیسائیوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر لال قلعہ چھوڑ ایک مجرم کی طرح 1858م میں رنگون جلا وطن ہونا پڑا تھا کہ جس کے آبا و اجداد نے اسی ہندوستان میں فتح و کامرانی اور ترقیات و علوشان کی نئی تاریخ مرتب کی تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے ہڈسن کی کمینگی پر اپنے شہید فرزندوں کے سر کو دیکھتے ہوئے جو کہا تھا وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے،کہا تھا ”تیمور کی اولاد اسی طرح باپ کے سامنے سرخرو ہوتی ہے“ اندلس اور ہندوستان کی تاریخ میں بہت حد تک مماثلت ہے اور یہی نہیں؛ بلکہ اسلامی فوج کشی کی تاریخ و سن بھی ایک ہی ہے اور دونوں ملک میں مسلمانوں کے ساتھ حالات بھی یکساں ہی ہیں،البتہ جنگ آزادی میں بیش بہا قربانیوں کے طفیل اس ملک میں ہمارے لئے تھوڑی بہت جگہ بچی تھی وہ بھی اب رفتہ رفتہ بھگوا متشددین کی سخت گیری اور اہرمنی فطرت کے وجہ سے ان کی شیطنت کی نذر ہونے جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں ان نامساعد حالات میں بھی بلند ہمتی سے تفاعل و اقدام کی کوشش کرنی چاہئے،یاد رکھنا ہوگا کہ اسی ہندوستان میں 711م میں محمدبن قاسم نے کفر و شرک اور ظلم و ستم کی دیواریں کھوکھلی کرکے اس پر اسلامی روح و یقین کی شمع روشن کی تھی۔ ہمیں اس واقعہ سے سبق لینا چاہئے گرچہ اپنے ہاتھوں سے اپنی گردنوں کے خون ہی کیوں نہ پونچھنا پڑ جائے،یاد رکھئے یہ دنیا مردان جفاکش کیلئے ہی بنائی گئی ہے بزدلوں کے لئے دنیا نہیں ہے؛ بلکہ بزدلوں کیلئے گوشہ نشینی اوردیر نشینی ہی بہتر ہے۔ 
گجرات ہائی کورٹ کا آج جو بیان سامنے آیا ہے وہ خود عدلیہ کی شفافیت پر سوال کھڑا کرتا ہے کہ تمام واضح ثبوتوں کے بعد عدلیہ اگر منصفانہ طریقہ سے فیصلہ میں آزاد نہیں ہے تو پھر جمہوریت اور عدالت کو ”میخانہ بدہوش“ قرار دینا چاہئے۔ آخر احسان جعفری کا قصور بس اتناتو ہی تھا کہ وہ مسلمان تھا اورمحترمہ ذکیہ جعفری کو اس لئے انصاف کیلئے در بدر بھٹکناپڑ رہا ہے کہ وہ ایک مسلمان خاوند کی زوجہ ہے،صرف آج کی عدالتی کاروائی کو ہی ملحوظ نہ رکھنا چاہئے؛ بلکہ بابری مسجد قضیہ کو بھی ”آستھا“ کے نام پر عدالتی فیصلہ کو بھی دیکھنا چاہئے کہ ملک میں کس طرح اقلیتوں کے خلاف ساری توڑ جوڑ اور کافرانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گودھرا سانحہ کے متعلق ہائی کورٹ کابیان تو ملاحظہ کیجئے ”گودھرا سانحہ کے بعد واقع تشدد میں مودی کو کلین چٹ دی گئی وہ کلین چٹ بر قرار رہے گی“ کیا یہ جملہ ایک جمہوری ملک کی عدلیہ کا ہوسکتا ہے؟ یاد رکھئے! بیدار ہوجائیں تمام شیطانی قوتیں آج متحد ہوکر اسلام کے خلاف ”دھرم یدھ“ میں شامل ہے؛ لیکن ہم ہی ہیں جو انتظار فردا میں جی رہے ہیں،تعمیر افکار کی روشنی میں قدم بڑھائیے منزل آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ 
نوٹ: واضح ہوکہ ان دونوں تصویرمیں سے ایک طارق بن زیاد کی ہے،جبکہ دوسری محمد بن قاسم کی ہے جو معروف انگریزی سائٹ سے لی گئی ہے جس میں ایک مسلم مصور نے تخیلاتی رنگ بھرا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق