نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق

جھوٹ کی اشاعت اور میڈیا کا کر دار

جھوٹ کی اشاعت اور میڈیا کا کر دار  برجستہ:افتخار رحمانی،بصیرت آن لائن یوں توصحافت ایک مقدس پیشہ تھا اور اگر اس کی تقدیس کے بھرم کے ساتھ اپنایا جائے تو اس کی تقدیس کو گرہن نہیں لگ سکتا ہے؛ لیکن جو مجموعی صورتحال  ادھر چند سالوں سے ملک میں بنی ہے وہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے ضیاع کا سبب بن رہی ہے۔ جب عورت کسی رئیس کے کوٹھے کی زینت بن جائے تو اسے عوام ’طوائف‘ کہتے ہیں۔ عورت کا حسن یہ ہے کہ وہ کوٹھے کی زینت نہ ہو؛ بلکہ ’شمع خانہ‘ ہو او ر اگر جب قلم کسی رئیس، حکومت، سیاست داں اور تاجر برادری کا غلام بن جائے تو وہ ’قلم حرفہ‘ ہو جاتا ہے۔ ملک کی صورتحال ابھی کچھ ایسی ہی ہے، ہمارا یہ مقدس شعبہ ’ضمیر فروش‘ ہوچکا ہے اور یہ صورتحال مسلسل مزید اپنی ہولناکی کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو پھر ملک کا پرنٹ میڈیا اس مسابقت میں آگے بڑھ جانے کو اپنی سرخروئی سمجھ رہا ہے۔ اگر 100فیصدی میں سے 1فیصدی میڈیا ہاؤس سچ بولتا ہے تو ایک کے سچ بولنے سے جھوٹ کے منفی اثرات کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور سچی بات تو یہی ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ملک کی صورت حال، گرتی معیشت، نوٹ بندی، جی ایس

لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں!

لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں! برجستہ: افتخاررحمانی  ملک کو آزاد ہوئے تقریبا سات دہائی گذر چکی ہے اور ملک میں اب بھی ایک معتد بہ طبقہ خوف وہراس اور زیاں نفسانی کے ماحول میں گذران زندگی پر مجبور ہے جب کہ آئین میں اس مقہور طبقہ کے تحفظ کی فراہمی کیلئے تمام شقیں موجود ہیں اور اس کو یقینی بنانے کیلئے تمام کوششوں کو بھی لازمی تصور کیا گیاہے؛ لیکن ان تمام امور کے تیقن کے باوجود تشنہ لبی یہ ہے کہ ان سے یکسر تغافل کیا جاتا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف بر سراقتدار طبقہ ہی ان امور کو ملحوظ رکھے یا پھر جن کے لئے یہ حقوق وضع کئے گئے ہیں وہ بھی اتلاف حقوق پر صدائے احتجاج بلند کریں،شاید یہ ہماری بھول ہے یا پھر ہماری معصومیت کہ ہم اشکبار ی تو جانتے ہیں؛ لیکن ردعمل کی کوششوں سے گریز کرتے ہیں دراں حا لیکہ ہم ان سے واقف بھی ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ سعی پیہم سے اجتناب کرتے ہیں؟ یہ سوال نہیں ہیں؛ بلکہ ہمارے لئے یہ تازیانے ہیں؛ کیونکہ جب کوئی قوم خود کو قعر مذلت میں دھکیل دے تو سوال ان کیلئے تازیانہ ہوا کرتا ہے۔ ہم تو اغیار کے ظلم و ستم پر اشکباری کرتے ہیں؛ لیکن خود کو مین اسٹریم سے ا