نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

’اب اور کتنے انظر...................!‘









’اب اور کتنے انظر...................!‘
برجستہ: افتخاررحمانی 

    گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رقص شرر“ کرلینے دیجئے، شاہد و شراب سے لطف اندوز بھی ہو لینے دیجئے وہ اپنے نشہ میں شعور سے بیگانے ہوچکے ہیں؛ کیونکہ’مہریزدانی‘اہرمن کے عبادت گذاروں پر لگا دی گئی ہے اور ان کا نصیبہ بھی یہی ہے۔میڈیا جو ’خدائے یک چشم‘ کا بندۂ مجبور ہے بلا مبالغہ کہنا چاہئے کہ وہ اپنے معبود کی پرستش سے منھ نہیں موڑ سکتا، یہاں کیفیت شرک و ایمان کی نہیں ہے؛ بلکہ زندگی و موت کی ہے ورنہ اس کے ’نادیدہ جانباز‘ (بلیک واٹر) شمعِ حیات کی لو مدھم کر سکتے ہیں۔ان کی زندگی’اہرمن اور خدائے یک چشم‘کی مرہون منت ہے ورنہ وہ سانس لینے پر بھی قادر نہیں ہیں۔بھارتی میڈیا کا رول ہمیشہ سے مشکوک رہا ہے اس سررشتہ کا تعلق گہرا بھی ہے جیسا کہ میں نے اس سے گذشتہ تحریر میں وضاحت کی تھی، میڈیا کی یہ بھی کوشش ہے کہ مسلمان خواہ جس ملک کے ہوں،یا پھر کوئی بھی مسلم ملک ہو اس کے تئیں نفرت کی اشاعت اور اس کی شبیہ مسخ کرنا فرض تصور کیا جائے، آج جتنے بھی دہشت گرد گروہ کے اسماء سننے کو ملتے ہیں اسی میڈیا کی کارستانی ہے،انڈین مجاہدین او رسیمی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن آج انڈین مجاہدین اور سیمی کے نام پر ہزاروں بے قصور مسلم نوجوان زندان میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان فہرست میں ایک نہیں ہزاروں اسماء ہیں کن کن اسماء کو شمار کرایا جائے۔ نثار الدین احمد، مفتی عبد القیوم او رمحمدعامر جیسے نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے میں اگر ایجنسیوں کا ہاتھ ہے تووہیں ”دجالی میڈیا“ کا بھی99فیصدی مشترکہ عمل دخل ہے۔نثار الدین احمد کے کلمات تو زندانی تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں، نثار الدین احمد نے کہا تھا ”میں ایک زندہ لاش ہوں“ اب ذرا یاد کیجئے! جب معروف عالم دین مولانا انظرشاہ صاحب کو انسداد دہشت گردی ایجنسی نے مولانا کو 5 جنوری 2016 نو بجے شب قیام گاہ سے اٹھا لے کر گئی اور پھر کل تمام اخبارات اورٹی وی چینلوں نے ”بریکنگ نیوز“ کے ذریعہ مولانا کو ایک خونخوار دہشت گرد کی شکل میں پیش کیا گیا حتی کہ زی نیوز نے ’نفرت کے ٹیچر‘ کے عنوان سے نفرت آمیز ایک شو بھی کیا جس کا یوٹیوب لنک یہ ہے: https://youtu.be/o0GYSWNDwh4 یہاں بھگوا میڈیا کی زرد صحافت دیکھی جا سکتی ہے۔ اور پھر ٹی وی چینلوں کے ”پرائم ٹائم“ میں ایک طبقہ کو مکمل دہشت گر د اور اس کا حامی بتانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔نئی نئی سرخیاں لگائی گئیں اور یک لخت صحافت میں نئی اصطلاح بھی قائم کی جانے لگی، تمام ٹی وی چینلوں میں تمام مدعے سے قطع نظر مولانا انظر شاہ کی مبینہ گرفتاری کو ہٹ نیوز بناکر پیش کی گئی حتی کہ موبائل ایپ یوسی براؤزر کے نیوز لائن میں بھی بھگوا نیوز پورٹل کے ذریعہ پیش کی گئی خبریں گشت کرتی رہیں۔ المیہ تو یہی ہے کہ ہم ایک نام نہادجمہوری ملک میں جی رہے ہیں، اکثریتی طبقہ کا غلغلہ ہے تو اقلیت اپنی حرماں نصیبی کے لعنت میں گرفتار ہیں۔اب جب کہ کل 17اکتوبر 2017کو پٹیالہ ہاؤس عدالت نے باعزت رہائی کا حکم دیا ہے تو سوائے اردو میڈیا کے ہر ایک کو سانپ سونگھ گیا، ہر کوئی ابھی تک ”نشہ بھگوائیت“ میں مدہوش میں ہے؛ بلکہ مردنی فضا بنی ہوئی ہے۔ اگر یو ں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہر سو ماتم اور سینہ کوبی کا عالم ہے وہ محو ِاستعجاب ہیں حتی کہ تکلم پر بھی قادر نہیں ہیں۔ میں نیوز روم میں بیٹھا ہوں نہ توپی ٹی آئی، یواین آئی، رائٹر اورنہ ہی کسی میڈیا ہاؤس نے مولانا کے ڈسچارج کئے جانے کی خبر دی حتی کہ یو این آئی جو اردو اخبارات کی خبر رسانی کاسب سے اہم اور معتبر ادارہ ہے اس نے بھی کوئی خبر نہیں دی یہ کمال تعجب ہے یا ابلہئ ذوق کی علامت؟ خواہ جو بھی کچھ ہو؛ لیکن مولانا کی رہائی کی خبر مکمل ہی مخفی رکھی گئی؛ کیونکہ انہیں خوف ہے کہ بھارتی میڈیا کی ’ہیئت ِ حاکمہ‘کی جو شبیہ ہے وہ مسخ ہوگی۔ اردو اخبارات کو مولانا کی رہائی کی خبر جمعیۃ علماء ہند کی پریس ریلیز کے ذریعہ ہوئی، البتہ ٹائمس آف انڈیا نے ایک کونے میں اس اسٹوری کو شائع کی ہے۔ آخر محض ایک طبقہ کے ساتھ ہی کیوں اتنی بھیانک سازش کی جاتی ہے؟ اس کا وہی قدیم جواب ہے جس کا اعادہ ”خدائے یک چشم“ کے کاروندوں نے سوئزرلینڈ کے شہر ”بال“ میں کیا تھا،خوفناک منصوبہ بندی  یوں تھی: 
    ”ہم ان تمام افراد کوان (حق)کی مخالفت میں کھڑا کردیں گے جو کسی نہ کسی طرح سے حق (اسلام) سے یک گونہ دشمنی رکھتے ہوں، ہم تمام طرح سے ان کی مدد کریں گے جوپروپیگنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں، ہماری یہی کوشش ہوگی کہ کوئی بھی خبر ان کے حق میں نہیں پیش نہ کی جائے؛ بلکہ جہاں تک ہوسکے ہم اسے منفی طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر بالفرض ان کی حق میں کوئی اطلاع بھی ملتی ہے تو ہم انہیں چھپا ئیں گے، ہمیں ان ہی کاز پر عمل پیرا ہوناہے جن سے ان (اسلام) کو نقصان پہنچانا آسان ہو“
    اب جو کیفیت بھارت میں بن رہی ہے اس کا گہرائی سے مشاہدہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ کس کے اشارہ پر مولانا انظر شاہ کو خونخواردہشت گرد بنایا تھا،جب کہ پٹیالہ عدالت نے انہیں تمام الزاموں سے بری کر دیا، بات صرف ایک انظر شاہ کی نہیں ہے؛ بلکہ ان لاکھوں انظر شاہ کی ہے جو اپنے جرم بیداد کے عوض زنداں کی شب تاریک میں اقلیت ہونے کا طعنہ برداشت کر رہے ہیں۔ جب میڈیا کی یہ پالیسی ہو تو پھر ایسے وقت میں کس کے لئے رحم کی گنجایش نکالی جا سکتی ہے۔ایک معروف نجی ٹی وی کے شو پر عمر خالد کی عدم حاضری پر اینکر یہ کہہ کر اپنا بھگوا تان توڑ رہا ہے کہ وہ عدالت میں حاضر ہونے سے ڈرتا ہے،جب کہ دہلی کورٹ میں عمر خالد، کنہیا وغیرہ کے خلاف مقدمات چل رہے تھے۔ گویا اینکر یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ چینل کے شو میں حاضر ہوکر اینکرکے سوالات کا جواب دے یعنی اب عدالت کا کام ٹی وی شو اور جج کا کام ٹی وی اینکر کر تے ہیں، جب کسی ملک میں ٹی وی شو مقدمات او رقضیہ کا تصفیہ کرنے لگ جائے تو پھر ایسے ملک کو عدلیہ اور منصف کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ تمام قضیے ٹی وی اینکر ہی فیصل کرلیا کریں گے۔ مبارک باد کے قابل ہیں وہ نوجوان علماء و فضلا ء جو سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر کے باطل قوتوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں ان میں مفتی یاسر ندیم الواجدی،علی سہراب اور اس طرح کے نوجوان جو دن بدن بھگوا میڈیا کو ایکسپوز کرتے رہتے ہیں، مولانا انظر شاہ کی گرفتاری او رعدلیہ کی طرف ڈسچارج کئے جانے پر انہوں نے جس طرح سے ٹوئٹر پر #MediaMadeIt ٹرینڈ چلاکر بھگوا میڈیا کی نیند اڑا دی۔ مؤدبانہ گذارش ہے ان نوجوان سے جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں کہ آپ نازنین صورت، زلف گرہ گیر، ادائے عاشقانہ اور ”دیوانہ می کند، دیوانہ می کند“کے ساز برہنگی کی دھنوں پر تھرکنے اور رقص کرنے کے بجائے مفید اور نفع بخش امور پر توجہ صرف کریں، ٹوئٹر،فیس بک اور واٹس ایپ کا مثبت استعمال کریں جو صرف آپ کیلئے ہی نہیں؛ بلکہ ملت کیلئے بھی نفع بخش ہے، اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ قوم کی کمائی کا تین تہائی ڈیٹا کمپنی پر صرف ہو رہا ہے؛ لہذا وقت اور ضرورت کے پیش نظر حق کے خلاف ہونے والی سازشوں اور پروپیگنڈہ کی تردید کیجئے، جس مبینہ مودی لہر کو ہوا دی گئی اس میں میڈیا کے علاوہ اسی سوشل میڈیا کی 50فیصدی شراکت تھی، انہوں نے اس کا استعمال پروپیگنڈہ کے لئے کیا اور اب بھی کر رہے ہیں، علی سہراب اس ذیل میں کافی دنوں سے متحرک ہیں، انہوں نے سوشل میڈیا کا اسی لب و لہجہ میں استعمال کیا ہے جس لب و لہجہ میں بھگوائیت کے نشہ میں چور ”کار سیوک“ کر رہے ہیں، جملوں کی ساخت اور اس میں کاٹ سے ان کے تخلیقی جوہرکا پتہ دیتی ہے۔ جو گرفتاریاں ہوئی او رہو رہی ہیں، طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں یا پھر عوام کے ایک بڑے طبقہ کو اس فکر پر متفق کر لیا گیا ہے اس کا توڑ ڈھونڈنا ہوگا، ورنہ میڈیا اپنے مخصوص طریقہ سے ایک طبقہ کی شبیہ بگاڑتا رہے گا اور بالآخر انجام وہی ہوگا جس کا خیال دنیائے دل کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔اہم سوال ہے کہ آپ کتنے دنوں سے ملک کے میڈیا پر تکیہ کئے ہوئے بیٹھے ہیں؟ آپ کتنی فیصدی درست اور مثبت رپورٹنگ کی امید بھارتی یا عالمی میڈیاسے کرتے ہیں؟آپ ماہانہ ان ٹی وی چینلوں پر کتنا خرچ کرتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب خواہ جو بھی ہو، تاہم حقیقت تو یہی ہے کہ اس میڈیا نے تمام قوموں سے ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کیا تو وہیں قوم مسلم سے کوئی ہمدردی یا انصاف پسندی کا کوئی مظاہر ہ نہیں کیا؛ بلکہ من گھڑت پروپیگنڈے سے زک پہنچانے کی کوشش کی ہے جو ”خدائے یک چشم“ کے تسلط کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ وہ اپنا ہدف حاصل کر رہے ہیں اور ہم ابھی بھی تشکیک و رجا کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔
      لطمات ِپیہم ”انتم الاعلون“ کا مزدۂ جاں فزا ہمیں قدم جمائے رکھنے پر اصرار کر تے ہیں، حزن و ہون سے ملول ہونے یا اس سے رشتہ استوار کرنے کی ممانعت چودہ سو سال پہلے نازل ہوگئی تھی، دفاع کرنے اور پھر تسلسل کی صورت میں ہمیں اقدام کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے؛ لیکن  ستم ظریفی کہ بجائے دفاع و اقدام کے پست ہمتی کے شکار ہوکر گوشہ نشیں ہوگئے۔ شرط اسی وقت لازم ہوسکتی ہے جب مشروط پر بھی نظر رکھی جائے، ایمان و ایقان مشروط تھا؛ لیکن تغافل نے قوم کو پستی سے ہم آغوش کر گیا، نتیجتاً زوال مقدر ہوگیا۔ذلیل اقوام کے ہاتھوں ایک فاتح قوم کوٹھوکریں دینا وہ تازیانہ ہے جسے زندہ قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ قوم نے تغافل میں چودہ سو سال کی عظیم تاریخ کو فراموش کر دیا ہے کہ جس قوم کے فاتحین کا نام ہی قوم کا اعزاز تھا۔ اقدام تو کجا دفاع پر ہی قدرت حاصل نہیں کم از کم دفاع کی قوت ہی پیدا کرلی جائے تو صورتحال بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ حالات مزید بدتر ہوں گے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش