نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جولائی, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا!

تسنیم کوثر  بھارت کا مسلمان آج جس کسوٹی پر کس کر  حب الوطنی  کے نام نہاد  نعرہ پر اپنے ہی ملک میں جان ہتھیلی  پر لئے پھر رہا ہے یہ کسی سنگھی  یا  بی جے پی کے سورما  کا کیا دھرا نہیں  بلکہ اسی کانگریس کا گڑھا  مفروضہ ہے جس کانگریس کی مسلمان آج بھی  اپنے خون سے آبیاری کر رہے ہیں ۔چیر پھاڑ کئے بغیر زخم ٹھیک نہیں ہوں گے۔ لیجئے  گجرات میں شنکر سنگھ واگھیلہ  نے اپنا بوجھ اتار پھینکا۔گجرات میں كکانگریس کا جو حال ہونے والا ہے اس پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئےکہ کانگریس کا قیام شروع دن سے جس مقصد کے لئے کیا گیا تھا وہ آج ملک کے تمام فیصلہ ساز اداروں پر آر ایس ایس کے لوگوں کے قبضے نے ثابت کر دیا ہے۔ اس ملک میں  اب تک جتنے فساد ہوئے کسی ایک  مجرم کو پھانسی نہیں ہوئی ۔لاکھوں  قتل ہوئےکروڑوں  در بدر۔آج   اسی گجرات کو لیجئےاحسان جعفری کے ساتھ ساتھ 5000 مسلمانوں کی قربانی ان ہی دونوں پارٹیوں کو زندہ رکھنے کے لئے دی جا چکی ہے اور آج بھی مسلمان ہے کہ آنکھ پر پٹی باندھ کر پانی پلا کر اس پارٹی کو زندہ رکھنے کے فراق میں ہے۔ شنکر سنگھ واگھیلا نے جن سنگھ سے

کسانوں کے مسئلہ کا حل کیا ہے ؟

کسانوں کے مسئلہ کا حل کیا ہے ؟ رويش کمار  مسئلہ یہ ہے کہ کسان دہلی آ جاتے ہیں تب بھی ان کی کوئی نہیں سنتا، میڈیا میں آ جاتے ہیں تب بھی کسی کو فرق نہیں پڑتا. ایسا نہیں ہے کہ حکومت کچھ کرنے کا دعوی نہیں کرتی ہے، اس کے تمام دعووں اور منصوبوں اور ان کی ویب سائٹ کے بعد بھی کاشت کا بحران جہاں تہاں سے نکل ہی آتا ہے. کسان دوبارہ جنتر منتر پر آ گئے ہیں. مدھیہ پردیش کے مندسور سے آل انڈیا کسان جدوجہد رابطہ کمیٹی نے کسان مکتی یاترا نکالی، جس میں 6 ریاستوں سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچی ہے. اس سفر کو ملک کے 150-200 سے زیادہ کسانوں کی تنظیموں نے حمایت دی ہے. اسٹیج پر کسان لیڈروں کے علاوہ پہلی بار خود کشی کرنے والے کسانوں کے بچوں نے بھی اپنا درد دہلی والوں کو سنایا. اس امید میں کہ دہلی کے لوگوں کو سنائی دیتا ہو گا. جنتر منتر پر چل رہے کسان مکت پارلیمنٹ میں دو ہی مانگیں خصوصیت کی حامل ہیں. کسانوں کو فصل کا پورا دام ملے اور کسانوں کو مکمل طور پر قرض مفت کیا جائے. این ڈی اے کے نائب صدر کے امیدوار وینکیا نائیڈو کا بیان تو یاد ہی ہوگا کہ کسانوں کے قرض معافی کا مطالبہ کرنا آج کل فیشن ہو گیا ہے

زعفرانی خانہ جنگی: یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے؟ ڈاکٹر سلیم خان

زعفرانی خانہ جنگی: یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے؟   ڈاکٹر سلیم خان  یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت کاابھی  40 واں بھی نہیں ہوا تھا کہ سہارنپور کا فساد پھوٹ پڑا جس نے دلتو ں کو  ٹھاکروں کے خلاف متحد کرکے بی جے پی سے دور کردیا اور سیکڑہ پورا  ہوتے ہوتے دیگر پسماندہ ذاتوں اور براہمنوں کے درمیان لڑائی لگ گئی ۔ اس طرح براہمن ، راجپوت، پسماندہ اور دلت اتحاد ڈھاک کے پات کی مانند بکھر گیا ۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی تاجپوشی کے 100ویں  دن جو کچھ ہوا وہ بالکل فلمی تھا بلکہ اگر اس کا منظر نامہ سلیم جاوید بھی لکھتے تو ایسا دلچسپ اور سنسنی خیز  نہ ہوتا۔ ان واقعات نے80  کی دہائی کے فلمساز ارجن ہنگو رانی یاد تازہ کردی ۔ وہ بہت باصلاحیت  فنکار نہیں تھا لیکن ہر فن مولیٰ  تھا ۔ فلمسازی کے علاوہ ہدایتکاری  کے فرائض بھی انجام دیتا  اور بوقت  ضرورت منظر نامہ لکھ مارتا لیکن اس کی فلمیں باکس آفس پر خوب کماتی تھیں بالکل مودی جی کی طرح جونہ دانشور ہیں اور نہ  رہنما ئی کی خاص صفات کے حامل  ہیں لیکن  کبھی نیتا بن کر اپنے ساتھیوں کو ڈراتے ہیں تو کبھی ابھینتا بن کر رائے دہندگان کا دل بہلاتے ہیں ۔ کبھی قہقہہ لگاتے ہیں

ضروری وضاحت

ضروری وضاحت  مکرمی قارئین                      السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   امید کہ بخیر ہوں گے،اس بلاگ پر کئی تحریر ایسی بھی ہے جو کئی ماہ و سال قبل اخبارات و نیوز پورٹل میں شائع ہوچکی ہے۔ ممکن ہے کہ اس تحریر سے کسی بدگمانی کے شکار ہوگئے ہوں گے؛ لیکن ان تحریر کو اس بلاگ پر اپڈیٹ کر نے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ یہ وہ تحریر ہے جو میری نظروں میں میرے لئے سند کا درجہ رکھتی ہے؛ اس لئے بلاگ پر اپڈیٹ کردیا ہوں تاکہ وہ تحریر کم ازکم میری نظروں میں محفوظ رہے۔ عدیم  الفرصتی اور مشغولیت کے ہجوم کے باعث لکھنا پڑھنا نہیں ہوپار ہا ہے؛ اس لئے تواتر کے ساتھ لکھنا بھی نہیں ہورہا ہے ان شاء اللہ جلد سابق کی طرح لکھنے کی کوشش کروں گا۔ میں سوچ رہا تھا کہ بلاگ بنانے کے بعد قارئین کو بلاگ پڑھنے کے لئے دعوت دینی پڑے گی کہ آئیے بلاگ پڑھئے؛ لیکن دوچار پوسٹ اپڈیٹ کرنے کے بعد محسوس ہو رہا ہے کہ ماشاء اللہ قارئین از خود کھنچے چلے آرہے ہیں ابھی مولانا فضیل احمد ناصری کا کلام اپڈیٹ کیا تقریبا پانچ سو سے زائد افراد نے اس پوسٹ کو پڑھا اور دیکھا جب کہ فیس بک پر میں نے صرف لنک پوسٹ کیا تھا کسی کو ٹیگ بھی

مرد آہن، صدر ترکی رجب طیب اردوغان کے نام ایک خط

مرد آہن، صدر ترکی رجب طیب اردوغان کے نام ایک خط باعث صد افتخار،ملت اسلامیہ کے بطل عظیم رجب طیب اردوغان ادام اللہ ظلکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہم تیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے لئے یہ خبر مسرت آمیز اور امید افزا نیزقابل فخر ہے کہ آپ اپنے قدوم میمنت سے بھارت کی سرزمین کو سرفراز فرمارہے ہیں یہ وہی سرزمین ہے جہاں ملت ا سلامیہ کی سلطنت اور فرماں روائی کی زریں تاریخ ابد تک کیلئے زندہ ہے۔یہ وہی سرزمین ہے جہاں محمد بن قاسم سے لیکر اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ تک کے حکمرانوں کے عدل و انصاف اور سنت فاروقی کی داستان فضاؤں میں باز گشت کر رہی ہے۔آپ جیسے نباض قوم و ملت اس پہلو سے ناواقف نہ ہوں گے کہ بھارت ملت اسلامیہ کے عہد رفتہ کی زندہ تاریخ ہے؛لیکن جب قوم آپسی انتشار اور باہمی جدل میں الجھ جاتی ہے تو قدرت اسے عبرت کا نشان بھی بنادیتی ہے اور بعینہ یہی کچھ قدرت نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ہم کل جو دوسری قوموں کو پناہ دیتے تھے آج خود دوسروں سے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ امام الہند مولانا آزاد علیہ الرحمہ کی پیشن گوئی حر ف بہ حرف پوری ہوگئی کہ ہم ایک ہندوراشٹر میں جینے پ

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

کشمیر: .......لہو ہمارا بھلا نہ دینا!

کشمیر: .......لہو ہمارا بھلا نہ دینا! (Iftikhar Rahmani, ) لہو در لہو ،آہ در آہ ،چیخ در چیخ ، اشک در اشک اور حزن در حزن کی المناکیوں کے درمیان کرفیو، بندش، بھوک کے43 یوم گذر چکے ہیں، درست تعداد کے موافق 66 سے زیادہ افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں ، ہزاروں وادی کے مختلف اسپتال ایس ایم ایچ ایس،میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،رعناواری اسپتال،چلڈرن اسپتال کے علاوہ شفاخانہ میں موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں تو ہزاروں افراد پیلٹ گن کی تباہ کاری کی نذر ہوکر اپنی بینائی سے ابد تک کے لیے محروم ہوگئے۔ کشمیریوں نے تو اپنے غم اور ملال کا چالیسواں بھی گذار لیا ہے، ابد تک اس تاریخی غیر معینہ کرفیو پر ماتم و نوحہ کریں گے اور اس متذکرہ سیاسی جبر کی دماغی دہشت گردی کا یوم الحشر تک مرثیہ پڑھیں گے ۔ بھارتی وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر کو اپنے متنازع اور غیر معقول بیان سے مزید پیچیدہ بنادیا ؛ چونکہ فی الوقت کشمیر کرفیو اور فوجی دہشت گردی کا تصفیہ چاہتا ہے، امن و سلامتی نیز سیکوریٹی پر ہمیشہ اعتماد کرتا ہوا آیا ہے اور کل بھی کرے گا ؛ لیکن جوابی ردعمل کے متشددانہ افعال یقینی اور بدیہی طور سے بھارت

منصور قاسمی : رجائیت کا نیا روشن عنوان

منصور قاسمی : رجائیت کا نیا روشن عنوان (Iftikhar Rahmani, ) علماء دیوبند اور ازہر ہند دارالعلوم سے علمی خوشہ چینی کرنے والے نیز علوم و معارف میں کسب فیض کرنے والےایک بڑےطبقہ کا تعلق شعر وادب سے رہا ہے، ماضی میں بڑے بڑے کہنہ مشق شاعر نیز معارف و نکتہ رسی کے قد آور غواص گذرے ہیں جن کے کارنامے ادبی تاریخ کا زریں باب ہیں ـ حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی علوم شریعیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے، قصائد قاسمیہ ان کی نغزگوئی، شاعرانہ لطافت اور نکتہ سنجی کے گواہ ہیں ـ ان کے علاوہ شیخ الہند مولانا محمودحسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا اعزاز علی، قاری محمد طیب وغیرہم بھی شاعرانہ ذوق رکھتے تھے ـ علاوہ ازیں عامر عثمانی، علامہ قمر عثمانی، کفیل الرحمن نشاط، علامہ عبدالعزیز ظفر جنکپوری، مولانا انظر شاہ، مولانا ریاست علی، مولانا فضیل احمد عنبر ناصری اور ذکی انجم جیسے قدآور اسماء بھی قابل ذکر ہیں جنھوں نے شاعری کا لوہا منوایا ہے ـ عہد حاضر میں شرعی علوم سے وابستگی رکھنے والے افراد نے جس طرح اپنی ادبی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے یقیناً دارال

مولانا احمد پر تابگڈھی اور ان کاعارفانہ کلام

مولانا احمد پرتابگڈھی اور ان کاعارفانہ کلام (Iftikhar Rahmani, ) تسنیم وکوثرکی دھلی ہوئی زبان فلسفہ حیات،مقصدِ عبدیت اوررازِ کن کوآشکاراکرنے والا کلام لوگوں نے بالعموم بہت ہی کم پڑھااورسناہوگا،تصوف کی شیرینی وحلاوت عجب کے بجائے خودسپردگی لذتِ سخن کے آشناؤں نے مولاناروم،حافظ،سعدی اورعطاروغیرہم کے کلام میں پایاہوگا؛کیوں کہ ان متذکرہ اشخاص کے کلام کا بنیادی محورومدارصرف تصوف،عشقِ حقیقی ،وارفتگی ہستی ہے ا ن کے علاوہ کسی دوسرے عناصر کی شمولیت کا کوئی بھی شائبہ نہیں ہے وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان کی فہم اورحس ہستی الہ کا ادراک کیے ہوئی تھی اورعشق حقیقی اورمجازی کے درمیان ایک حدِفاصل بھی مقررتھی کہ جہاں عشق حقیقی کی سرمستی اورتموج تھااوریہاں پردہ نہاں میں ہستی کی ہی جلوہ گری تھی اورعارفانہ کلام ان ہی جذبات وکیفیات،شیفتگی دل اورسودائے جاں کاآئینہ ہے ۔زبان وادب میں اگرتصوف کا شمول نہ ہوتویقینا وہ محض قافیہ کی پابندی اوراپنے فطری سازوسوزسے عاری ہے ،شاعری میں روح اورجان اسی وقت آسکتی ہے جب یہ عناصراپنی مکمل تابانی کیساتھ موجزن ہوں اورجوالفاظ منھ سے نکلے وہ اثروتاثیرکی ا