نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر





 فضیل احمد ناصری

ملک کے حالات پر غمگین ایک 

 نظم 

ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے
ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے

اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی
جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے

ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟
جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے
اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں
خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے
مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا
کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے
جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں
ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے
حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم
جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے
حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی
ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے
امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی
تم نے جنت سے کشمیر کو بھی، رکھ دیا ہے جہنم بنا کے
امن و انصاف قائم ہو کیسے، ملک کیسے ترقی کرے گا؟
بات تم سے نہ بن پائی اب تک، دیکھ لو ہم کو بھی آزما کے



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق