نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اپریل, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
بی جے پی کا ایک اور جھوٹ عیاں : بنگلہ دیش کے تشدد کی تصویر کو بنگال کے تشددکی تصویر بتادیا کولکاتہ 25 اپریل مغربی بنگال کے پنچایتی انتخابات میں بی جے پی کو اپنے انتخابی منشور میں بڑی چوک کی وجہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ انتخابی منشور میں تشدد کی جن تصاویر کو بنگال سے منسلک بتایا گیا ہے وہ دراصل بنگلہ دیش کی ہیں۔ پارٹی نے منگل کے روز اس انتخابی منشور کا اجرا کیا تھا ۔ انتخابی منشور کے کتابچہ کے کور کے پچھلے حصے پر ان تصاویر کو کولاج کے طور پر شائع کیا گیا ہے.۔ یہ تصاویر بنگلہ دیش میں 2013 میں جنگی جرائم سے منسلک مقدموں کے بعد بھڑکے تشدد کے دوران کی ہیں۔ بی جے پی نے ایسی تصاویر کا استعمال اپنے پروپیگنڈہ کے طور پر کیا ہے۔ بی جے پی اکثر ممتا بنرجی کے دور حکومت میں مغربی بنگال میں ہندوؤ ¿ ں کے مبینہ استحصال کا الزام لگاتی رہی ہے ۔ تصویر میں مظاہرین کو ٹوپی پہنے اور ہاتھ میں لاٹھیاں لئے دیکھا جا سکتا ہے، پس منظر میں کچھ گاڑی جلتی ہوئی نظر آ ر ہی ہیں۔کچھ دیگر تصاویر میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مسخ شدہ مورتی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح ہو کہ بنگلہ دیش کے نصیرنگر میں اکتو
 در زمانه  اخبار كذب  تحریر: گوری لنکیش ترجمہ: افتخار رحمانی اس ہفتہ کے ایشوسے متعلق میرے دوست ڈاکٹر واسو نے گوئے بلز کی طرح ہندوستان میں فیک نیوز بنانے کی فیکٹری کے متعلق لکھا ہے جھوٹ کی ایسی فیکٹریاں عموما مودی بھکت ہی چلاتے ہیں ـ جھوٹ کی فیکٹریوں سے جو نقصان ہورہا ہے میں اس سے متعلق اپنے اداریہ میں واضح کرنے کی کوشش کروں گی ـ ابھی "گنیش چترتھی" تھی اس دن سوشل میڈیا میں ایک افواہ پھیلائی گئی اس افواہ کی اشاعت کے پس پردہ سنگھ کے ہی حامی تھے ـ یہ افواہ کیا ہے؟ افواہ یہ ہے کہ کرناٹک سرکار جہاں حکم دے گی وہیں گنیش کی مورتی نصب کرنا ہوگی، اس سے قبل دس لاکھ رقم ڈپازٹ کرنی ہوگی، مورتی کی لمبائی کتنی ہوگی اس کے لئے حکومت سے اجازت لینی ہوگی، دوسرے مذاہب (اسلام)  کے ماننے والے جہاں رہتے ہیں ان علاقوں اور راستوں سے مورتی وسرجن کے لئے نہیں جاسکتے اور پٹاخے ،آتش بازی وغیرہ بھی نہیں کرسکتے ـ سنگھ کے حامیوں نے اس جھوٹ کی اتنی شدت کے ساتھ  اشاعت و تشہیر کی کہ بالآخر کرناٹک پولس کے اعلی حکام کو پریس کانفرنس کے ذریعہ مبینہ پروپیگنڈہ کی تردید کرنی پڑی کہ حکومت نے ایسا کوئی حکم نامہ جار
انا ؤ ،کٹھوعہ: ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ہوسناکی و لاچاری افتخاررحمانی، نئی دہلی     کل جس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا ، آج وہ خدشات ایک ایک کرکے سچ ثابت ہورہے ہیں۔حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ جس شخص نے خواتین کی عزت و عفت کا ڈھنڈورہ پیٹ پیٹ کر سنہاسن (راج گدی) میں بیٹھا تھا آج اسی کے دورِاقتدار   میں خواتین بے حرمت ہورہی ہیں ، جس نے ’ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘کا نعرہ دیا تھا اسی کے دور اقتدار میں یوں معصوم کلیاں ہوس کاروں کی ہوس کا شکار ہوگیں تصورات نے کبھی اس کا شبہ ظاہر کیا ہو۔اس عقید ت اور ’شردھا‘ کا کیا ہوگا جو ’شردھا‘ اور بے پناہ عقیدت ایک عام انسان کے لیے عوام کی جانب سے مختص تھی؛بلکہ صورتحال تو یہ تھی کہ عقیدت و محبت کا دریا رہ رہ کر موجیں ماررہا تھا ۔ اس ملک میں خواہ کچھ ہواہو یا نہیںیہ الگ سوال ہے؛لیکن اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ مذہب کے نام پر عقیدت ،’آستھا‘ اور’شردھا ‘کو اپنی سیاست کی ہوسنا کی کے لیے ضرور استعمال کیا گیا ہے۔جے شری رام کا نعرہ ایک زانی کی حمایت میں جب لگایا جاسکتا ہے تو پھر اس عقیدت اور آستھا کا عبرت ناک انجام پیش آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے یقین کیجئے !