نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
اناؤ،کٹھوعہ: ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ہوسناکی و لاچاری

justice-for-asifa-1.jpg

افتخاررحمانی، نئی دہلی 
 کل جس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا ، آج وہ خدشات ایک ایک کرکے سچ ثابت ہورہے ہیں۔حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ جس شخص نے خواتین کی عزت و عفت کا ڈھنڈورہ پیٹ پیٹ کر سنہاسن (راج گدی) میں بیٹھا تھا آج اسی کے دورِاقتدار  میں خواتین بے حرمت ہورہی ہیں ، جس نے ’ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘کا نعرہ دیا تھا اسی کے دور اقتدار میں یوں معصوم کلیاں ہوس کاروں کی ہوس کا شکار ہوگیں تصورات نے کبھی اس کا شبہ ظاہر کیا ہو۔اس عقید ت اور ’شردھا‘ کا کیا ہوگا جو ’شردھا‘ اور بے پناہ عقیدت ایک عام انسان کے لیے عوام کی جانب سے مختص تھی؛بلکہ صورتحال تو یہ تھی کہ عقیدت و محبت کا دریا رہ رہ کر موجیں ماررہا تھا ۔ اس ملک میں خواہ کچھ ہواہو یا نہیںیہ الگ سوال ہے؛لیکن اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ مذہب کے نام پر عقیدت ،’آستھا‘ اور’شردھا ‘کو اپنی سیاست کی ہوسنا کی کے لیے ضرور استعمال کیا گیا ہے۔جے شری رام کا نعرہ ایک زانی کی حمایت میں جب لگایا جاسکتا ہے تو پھر اس عقیدت اور آستھا کا عبرت ناک انجام پیش آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے یقین کیجئے ! یہ رام کے نام کی بے حرمتی ان کے خس و خاشاک کوجلا بیٹھے گی۔کل تک تو وہی رام راج تھا جس کے سایہ ھما میں تقریباً 150سے زائد بچوں نے آکسیجن کے لیے تڑپ تڑپ کر دم توڑاتھا، اب اسی یوپی سے یہ بھی خبر سامنے آرہی ہے کہ انائو میں ایک نابالغہ  کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی گئی جس میں بی جے پی کا  ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر ماخوذو ملزم ہے۔ اس معاملہ کا سرا یہیں منتج نہیں ہوتا ہے ؛ بلکہ میڈیا کی اطلاع کے مطابق متاثرہ خاتون نے وزیر اعلیٰ کی رہائش کے آگے خود سوزی کی بھی کوشش کی۔ یہ معاملہ مزید حساس اس لیے بھی ہوجاتا ہے کہ متاثرہ کے والد کو ایک فرضی معاملہ میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر وہاں جم کر بے رحمی سے پٹائی کی گئی جس کی تاب نہ لاکر متاثرہ کا  والد جاں بحق ہوگیا۔ متاثرہ کا الزام ہے اس وقت سچ ثابت ہو تا ہوا نظرآتا ہے جب ایک آڈیو کلپ وائرل ہوتا ہے جس میں صاف طور پر آپس میں ڈیل کیے جانے کی بات سامنے آتی ہے ۔ وہیں کٹھوعہ میں معصوم ۸ /سالہ آصفہ کے ساتھ درندگی کی خبر اور زانیوں کی حمایت میں جے شری رام اور بندے ماترم کا نعرہ لگایا جانا کوئی مذہبی عقیدت نہیں ،صاف کہہ لیجئے کہ یہ ان انتہا پسندوں کی جماعت ہے جو مذہب کی آڑ میں وہ سب کرگذرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت بھارتی آئین نہیں دیتا۔ اب ذرا غور کیجئے ! آخر کیوں متاثرہ خاتو ن نے وزیراعلیٰ کی رہائش کے آگے خود سوزی کی کوشش کی ؟ کیا اس خاتون کو انتظامیہ پر بھروسہ نہیں ہے ؟ کیا وہ متاثرہ خاتون اس رام راج میں یقین نہیں رکھتی ہے ؟ کیا انصاف کی تمام امیدیں سیاسی طاقت کے آگے دم توڑچکی تھیں ؟ متاثرہ نے جس بیقراری اور درد بھری انداز میں اپنا دکھڑا سنا رہی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ظالم اپنے ظلم اور استبداد میں بد مست ہوچکا تھا اور اب اس کے پاس سوائے خودسوزی کے سوا ا ور کوئی شکل نہیں تھی ۔کیا یہ سچ اس یوپی کا ہے کہ جہاں متاثرہ تقریباً ایک سال سے اجتماعی عصمت دری کی شکایت کے لیے در بدربھٹک رہی تھی ؟ شاید ان بھکتوں اور کورانہ تقلید کے پجاریوں کی عقل ٹھکانے لگ گئی ہو گی کہ جسے ہم نے اپنی بھکتی اور آستھا کا ’کیندر‘ سمجھا تھا ،اس کے ہی ہم کار و معاون لٹیرا بن بیٹھا ہے ۔ کلدیپ سینگر جیسے سیاسی لیڈران کا بیان سنئے اور سر پیٹئے کہ ایک زنا کا ملزم کس قد ربے باکی سے اسے مخالفین کی سازش قرار دے رہا ہے، وہ یہیں نہیں رکتا اور نہ اس کی جماعت کے افراد اپنی زبان پر لگام لگاتے ہیںبلکہ ان کے ایک سیاسی دوست نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ نفسیاتی طور پر کوئی تین بچوں کی ماں سے عصمت دری نہیں کرسکتاہے ، دراں حالے یہ موصوف کی لاعلمی ہے ، میڈیا رپورٹ کے مطابق متاثرہ ایک نابالغ ہے اور اس کی کہیں شادی نہیں ہوئی ہے ۔یہ موصوف کا اپنا خیال ہوسکتا ہے ؛ لیکن کیا اب اس پر محض سیاست ہی باقی رہ جائے گی یا پھر متاثرہ کو انصاف بھی ملے گا اور مقتول کے والد کی بٰھٹگتی ’آتما‘کو ’شانتی‘ ملے گی ۔یاد رکھئے! جب تک ملک میں بھیڑ اور’ بھیڑ تنتر‘ کی سربراہی رہے گی اس وقت بھیڑیوں کا غول بیابانی جوق در جوق نکلے گا اور کسی کو اپنی ہوس کا لقمہ بنا بیٹھے گا۔ جس سرکار نے ’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘ کا نعرہ دیا تھا وہاں کیا ہورہا ہے،یہ دیکھنے اور سمجھنے کی بات ہے ۔ کیا یہ سچ ہے کہ مبینہ ؛ بلکہ مزعومہ ’رام راج ‘ میں خواتین محفوظ نہیں ہیں ؟ اگر محفوظ نہیں ہیں تو پھر اس سوال کا جواب کو ن دے گا کہ ’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘ کے فلک شگاف نعروں اور جلی حرفوں سے مرقوم عبارتوں سے قائم ہونے والی سرکار اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہوئے ملزمین اور زانیوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔ حیرت اور استعجاب تو یہ ہے کہ آن ریکارڈ بی جے پی کے ترجمان ایک ملزم کی طرفداری یوں کررہے ہیں کہ گویا ملزم ازل سے تمام گناہوں سے معصوم ہے ۔ کٹھوعہ کی صورتحال بھی آئین کے لیے بڑے شرم کی بات ہے کہ چارج شیٹ داخل نہ کیا جائے اس کے لیے وکلاء کی بھیڑ اور دوسرے زر خرید بھیڑ ملزموں کی حمایت میں جے شری رام کا نعرہ لگا کر ترنگا لہرا رہی ہے ، یہ شرم اور ماتم ہے بھارتی آئین کے لیے کہ ایک ملزم کو بچانے کے لیے’’ بھگوائیت کا ننگاناچ ‘‘ کھیلا جارہا ہے ۔ یہ سب اس لیے بھی ہورہا ہے کہ ان کے سروں میں اقتدار کا سودا سمایا ہوا ہے اور اِن تمام باتوں کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے بجائے فرقہ وارنہ طرز میں بدترین’آمریت‘ کا تسلط ہے ،اس لیے لیڈران ؛ بلکہ وہ ملزم جن کو حکومتی تحفظ مل چکا ہے وہ بے باک اور بے خوف ہیں۔
                                                            آ ج سے چار سال قبل ملک کے عوام کو ایک نیا نعرہ ؛ بلکہ سنہرے خواب دکھائے گئے تھے ’ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘ کا ؛ لیکن آج اس نعرے کی حقیقت کیا ہے اور یہ نعرہ کتنا بے دم ہوچکا ہے وہ کوئی مخفی چیز نہیں ہے ۔ دیکھئے اور سمجھئے کہ کیا ہورہا ہے ا ور وہ لوگ کس قدر سفاک او ر بے رحم ہیں کہ جنہوں نے یہ نعرہ دیاتھا ان کے ہی ہاتھوں خواتین و طالبات کی جان تو کجا عصمتیں محفوظ نہیں ہیں ۔یاد کیجئے! دہلی کے بدنام زمانہ نربھیا واقعہ کو کس طرح میڈیا نے اس موضوع پر گفتگو کی تھی ؛ لیکن آج انائو اور کٹھوعہ عصمت دری معاملے میں مہر بہ لب ہے ؛ کیوں کہ ان کو اس کے لیے اسپانسر نہیں کیا گیا ہے ؛ ا س لیے وہ خاموش ہیں اور یہی ا ن کا مسلک بھی ہے کوبرا 136اسٹنگ آپریشن اس کی سچائی بیان کرتا ہے ۔آخر کیوں ؟ سوال اپنی جگہ اہم اس لیے بھی ہے ؛ کیوںکہ ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں دنیا کا سب سے بہتر، مؤثراور قابل فخر جمہوری نظام ہے اور اس نظام کے تحت تمام طبقات کو سوال کرنے اور پوچھنے کا آئینی حق ہے، تاہم سوال کرنے کا آئینی حق چھیننے کی کوشش ہورہی ہے۔ کوئی اب یہ سوال نہیں کرسکتا کہ یوگی جنہیں ایک تارک الدینا کہا جاتا ہے اور جن کو رام راج پر فخر بھی ہے ان کے دور اقتداریعنی’ رام راج ‘ میں کیوں کر ایک نابالغہ کے ساتھ تقریباً ایک سال سے مبینہ طور پر عصمت دری کی جاتی رہی اور جب یہ متاثرہ فریادی بن کر در در بھٹک رہی ہوتی ہے تو پھر کیوں نہیں اس کی داد رسی کی گئی۔ جب وہ سسٹم سے ناامید ہوگئی تو اس نے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی ۔ محبوبہ مفتی سے سوال ہے کہ وہ محض اقتدار کے لالچ میں اس شرمنا ک واقعہ کے تحت ملزمین کوبچار ہی ہے۔  وہ کون سی طاقت ہے جو ایک مظلوم اور مجبور کی آواز خاموش کرنے اور ایک ملزم کی حمایت میں ریلیاں نکال کر ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگارہی ہے؟ سوشل میڈیا پر بھی ایک غیرمرئی طاقت متحرک ہوچکی ہے جو ایک ملزم کی حمایت میں غیر معقول مواد پوسٹ کرر ہی ہے ۔آئین کی رو سے’ پوکسو ایکٹ تو یہ کہتا ہے کہ ملزم کی فوری گرفتاری ہونی چاہیے ؛ لیکن ایک مجرم کو تحفظ فراہم کرنا اپنا فکری شعار سمجھتے ہوئے سرکار نے یہ کہہ دیا کہ ہم اسے گرفتار نہیں کرسکتے ؛ بلکہ سی بی آئی گرفتار کرے گی ،گرفتاری تو بعد کی چیزہے حد تو یہ ہوگئی کہ اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کیا جاسکا، کیوں؟مگر آپ یہ سوال نہیں کرسکتے؛کیوں کہ آپ جمہوریت میں نہیں؛بلکہ بدترین’ آمریت‘ کے دور میں جی رہے ہیں ، جہاں آپ کاآئینی حق سلب کیا جانا ان کا مذہبی حق ہے؛بلکہ خدشہ ہے کہ سوال پوچھنے کے جرم میںکوئی انجانی بھیڑ آپ کو اپنی ہوس کا لقمہ بنا سکتی ہے ۔ ان کی پر اسرار خاموشی صرف ریاستی حکام اور و زراء تک ہی محدود نہیں ہے ؛ بلکہ ’ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو ‘ کا نعرہ بلندکرنے والے مرکزی وزراء بھی اس معاملہ میں مہر بہ لب ہیں ؛ کیوں کہ ان کا ایجنڈہ زانی اور قاتلوں کو سزا دینانہیں ہے ؛ بلکہ مذہب کی آڑ میں اقتدار حاصل کرکے دنیاوی لذات کی تحصیل اور عشرت کدہ آباد کرنا ہی مطمح نظر اورکارِ مقصودہے ۔ اس کی واضح مثال کئی تارک الدینا ’ سنیاسی بابائوں‘ کا سیاست میں حصہ لے کر وزرات تک پہنچنا ہے اور جو سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں ان کو حکومت از خود ’سودے بازی‘ کے طور پر اعزازی وزیر بنانا فخر محسوس کرتی ہے ، مدھیہ پردیش کے پانچ بابا اس کی مثال ہیں ۔ ان واقعات پر خاموشی بھی ا ختیار کرلی جاتی ؛ لیکن مسلسل ہورہے خواتین پر ظلم اور ان کی جنسی ہراسانی نیز مجرموں کے بڑھتے حوصلے دیکھ کرآنکھیں بند نہیں کی جاسکتی ہیں اور خود کو خوش فہمی میں مبتلا کرکے انصاف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اب اس نفاق پر آپ سر پیٹ لیجئے اور ماتم کیجئے کہ آج جب کہ دو ریاست یوپی اور جموں کشمیرمیں عصمت دری کے واقعات کی باز گشت سنی جارہی ہے ، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مگر ملک کی اعلیٰ قیادت ’ برت‘ رکھنے کے نفاق پر عمل پیراہے۔ اور پھر ہم اس اعلیٰ قیادت پرکیسے بھروسہ کرسکتے ہیں جو ایک عام سے لڑکے کو ٹوئٹر پر فالو کرتی ہے،جو لڑکا ایک عورت کے قتل کو ’ کتیا کی موت ‘ سے تعبیر کرتا ہے ۔کئی دن گذرگئے؛ لیکن کیا کسی وزیر کو اس معاملہ کی شفاف تفتیش کا مطالبہ کیا ہے؟ کیا تمام طرح کی ذمہ داری محض حزب اختلاف کے ہی کاندھوں پر ہے ؟ انسانیت کے نام پر کچھ ذمہ داری حکمراں طبقے کی بھی ہوتی ہے۔ مگر آج یہ خبرآرہی ہے کہ جو دہلی نربھیا معاملہ میں بیدار ہوا تھا وہ کل رات بیدار ہو کرانڈیا گیٹ پر راہل گاندھی کی قیادت میں معصوم آصفہ کی حمایت میں کینڈل مارچ نکالا تھا اوریہ بھی خبر موصول ہورہی ہے کہ سی بی آئی نے ملزم ایم ایل اے کلدیپ سینگر کو حراست میں لے لیا ہے ۔ 
                                                            بی ایچ یو میں ہونے والے ہنگامے اور طالبات کے ساتھ مبینہ چھیڑخانی کو اگر بھول گئے ہوں گے تو پھر اس واقعہ کو تازہ کرلیجئے؛کیوں کہ مسائل،اشتعال انگیز نعروں، ہجومی تشددکی للکار، قتل و کشت کی دھمکیاں اور عقل و خرد سے عاری لیڈران کے لغو بیانات نے اس واقعہ کو ذہن سے محو کردیا ہوگا۔21ستمبرکو وہاں جن مسائل کے تحت طالبات نے تحفظات کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا اس کو حکومت نے طاق نسیان میں ڈالا؛ بلکہ ان پر پولیس کی لاٹھیاںبھی برسیں ،لیکن ان کے مطالبات تسلیم نہیںکئے گئے، ان تمام طالبات نے یا تو صبر کرلیا، مصالحت اختیار کرلی یا پھر یونیورسٹی سے ہی خود کو فارغ کرلیا۔ٹھیک اسی طرح ایک بار یوگی سرکار خواتین کے ساتھ زیادتی کے نام پر گھری ہوئی نظر آرہی ہے اور حد تو یہ ہے کہ سیاسی بیان کے سوا کسی اور مثبت اقدام سے گریز کیا جارہا ہے ۔ سوال پھر قائم ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ؟ اگر ایک متاثرہ کو رام راج انصاف نہیں دلاسکتا ، ایک متاثرہ کے باپ کے قاتل کو سزا نہیں دی جاسکتی ہے تو پھر رام راج کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے؟ اس پر گھمنڈ اور ’انا‘ کا اظہار بھی بے معنی ہے ۔ خدارا رام کی تقدیس کا لحاظ رکھیں ؛ کیوں کہ ملک میں بسنی والی ستر فیصدی آبادی رام کو اپنا’ بھگوان‘ مانتی ہے ۔اگر معصوم آصفہ کی دردناک چیخ مندر کے سناٹے کوچیرتی ہوئی حکمراں بشمول محبوبہ مفتی کواشکبار نہیںکرسکی توجان لیجئے کہ حکمراں پتھر بن چکے ہیں جن میں کوئی حس و حرکت نہیں ہے ۔اور ہاں! ’بیٹی بچائو اور بیٹی پڑھائو‘ کے نعرہ میں اصلاح کرتے ہوئے’ بیٹی خود بچائو‘ کا اضافہ کرلیں ؛کیوں یہ ناکارہ اقتدار ہجومی قاتل تو بناسکتا ہے ،مگر یہ ا قتدار مظلوم اور مجبور کو انصاف مہیا کرانے سے قاصر ہے؛ بلکہ مجرم کو تحفظ فراہم کرنا ان کا سیاسی شعار ہے ۔ انتظار کیجئے اس دن کا جب آسمان سے پتھر برسنے لگ جائیں اور یکایک عذاب الٰہی چاروں طرف سے گھیر لے ۔
  
   


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں!

لٹ گئی متاع حیات خود فریبی میں کہیں! برجستہ: افتخاررحمانی  ملک کو آزاد ہوئے تقریبا سات دہائی گذر چکی ہے اور ملک میں اب بھی ایک معتد بہ طبقہ خوف وہراس اور زیاں نفسانی کے ماحول میں گذران زندگی پر مجبور ہے جب کہ آئین میں اس مقہور طبقہ کے تحفظ کی فراہمی کیلئے تمام شقیں موجود ہیں اور اس کو یقینی بنانے کیلئے تمام کوششوں کو بھی لازمی تصور کیا گیاہے؛ لیکن ان تمام امور کے تیقن کے باوجود تشنہ لبی یہ ہے کہ ان سے یکسر تغافل کیا جاتا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف بر سراقتدار طبقہ ہی ان امور کو ملحوظ رکھے یا پھر جن کے لئے یہ حقوق وضع کئے گئے ہیں وہ بھی اتلاف حقوق پر صدائے احتجاج بلند کریں،شاید یہ ہماری بھول ہے یا پھر ہماری معصومیت کہ ہم اشکبار ی تو جانتے ہیں؛ لیکن ردعمل کی کوششوں سے گریز کرتے ہیں دراں حا لیکہ ہم ان سے واقف بھی ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ سعی پیہم سے اجتناب کرتے ہیں؟ یہ سوال نہیں ہیں؛ بلکہ ہمارے لئے یہ تازیانے ہیں؛ کیونکہ جب کوئی قوم خود کو قعر مذلت میں دھکیل دے تو سوال ان کیلئے تازیانہ ہوا کرتا ہے۔ ہم تو اغیار کے ظلم و ستم پر اشکباری کرتے ہیں؛ لیکن خود کو مین اسٹریم سے ا