نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری




قسط اول

 عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری
 خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی
حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و شکر تھے آج ایسے دشمن بن گئے گویا دشمنی ایمان و اذعان کا حصہ ہو۔ آج قوم قومی مرثیہ نامہ ” مسدس حالی“ پڑھ کر”واہ واہ“ کر نے لگ جاتی ہے جب کہ اس درماندہ قوم کو ” آہ آہ “ کرکے جداگانہ سمت و رخ اختیار کرنی چاہیے تھی، مگر نئی نسلوں کی حالت زار دیکھ کر کف افسوس ہی ملنا پڑتاہے۔ حالی نے اپنے مجموعہ نظم حالی کے دیباچہ میں ایک نئی بات لکھی ہے جو انہوں نے اس وقت کے متعدد غزل گو شعراءکی روایات و تقلید سے ہٹ کر کہی تھی، حالی نے لکھا تھا :
” میں اپنے قدیم مذاق کے دوستوں اور ہم وطنوں سے جو کسی قسم کی جدت کو پسند نہیں کرتے ، معافی چاہتا ہوں کہ اس مجموعے میں ان کی ضیافت ِ طبع کاکوئی سامان مجھ سے مہیا نہیں ہوسکا اور ان صاحبوں کے سامنے جو مغربی شاعری کی ماہیت سے واقف ہیں ، اعتراف کرتا ہوں کہ طرزجدید کا حق ادا کرنا میری طاقت سے باہر تھا ، البتہ میں نے اردو زبان میں نئی طرز کی ایک ادھوری اور ناپائیدار بنیادڈالی ہے۔ اس پر عمارت چننی اور اس کو ایک قصرِ رفیع الشان بنانا ہماری آئندہ ہونہار اور مبارک نسلوں کا کام ہے جن سے امید ہے کہ اس بنیاد کوناتمام نہ چھوڑیں گے “ ( دیباچہ نظم حالی )
    حالی در اصل ایک مصلح قوم و ملت تھے، وہ شاعری کی راہ سے قوم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی سرے سے تطہیر بھی چاہتے تھے جب کہ یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ ہماری شاعری جو اپنے قالب و جان میں کبھی ایستادہ نہ ہوسکی ؛ بلکہ فارسی کے تعاون و تائید سے کسی زندہ زبان کی جلو میں رہا کرتی تھی ، کچھ ایسے خیالات ، عناصر اورافکار اردو شاعری میں در آئے تھے کہ جن کو ہم ذہنی آوارگی اور فکری عیاشی؛بلکہ نفسانی خواہشات کی تسکین کہہ سکتے ہیں اور سچائی بھی کچھ یہی ہے کہ ہماری اردو شاعری فارسی آمیزی کی وجہ سے پراگندہ ہوگئی۔ میر و مصحفی کی ذہنی آوارگی اور فکری عیاشی کو گرچہ اردو ادب بہت بڑا مقام عطا کر تا ہو ، تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ افکار اور اظہارِ خیال قوم اور حقیقت پسند انہ ادب کے منھ پر طمانچہ تھا۔حالی نے منقول دیباچہ میں جو کچھ کہا ہے ، ان ہی افکار و خیالات کے خلاف ”جہاد“ کا عندیہ ہے۔حالی نے ایک بنیاد رکھی اور اس پر عمارت کھڑی کرنا آئندہ نسلوں کی ذمہ داری تھی، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ اقبال ، جوش ، تلوک چند محروم، جمیل مظہری وغیرہ کے اسماءقابل ذکر ہیں انہوں نے نظم نگاری اور حقیقت بیانی کو اختیار کرکے حالی کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی کوشش کی۔ اسی قافلہ کے ایک در نایاب مدرسہ کے بوریہ و چٹائی پر اپنی پوری زندگی کھپادینے والے بوریہ نشیں شاعرفضیل احمد ناصری ہیں۔جو دل و جگر میں قوم کا درد پیہم لیے قوم کی راہ نمائی و رہبری معقول انداز میں کر رہے ہیں۔ وہ جہاں قرآن و تفسیراور حدیث و فقہ جیسے شرعی علوم کی تعلیم دیتے ہیں تووہیں ان سے فارغ ہوکر ” احوالِ دل“ نظموں اور شاعری کے ذریعہ رقم کرتے رہتے ہیں۔ در حقیقت حالی نے جس ”ادھوری اور ناپائیدار بنیاد“ کا ذکر کیا تھا مولانا ناصری اس کو ایک اپنے محمود افکا رو خیالات اور فکر روزگار سے ” پائیدارقصر ٍ رفیع الشان “ بنانے کے مبارک عمل کو انجام دے رہے ہیں۔ علم ان کا خالص مشرقی و اسلامی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ مبارک عنصر بھی ان کی شخصیت کو مزید حسن عطا کرتا ہے کہ وہ علما ´دیوبند اور اسلاف و اکابر کے معتدل مزاج و منہاج کے پیروکار و ترجمان بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں کا ہر ایک حرف روح اسلامی کا ترجمان اور قوم کی حا لت ِ زار پر مرثیہ خواں ہے۔ کلام میں پختگی، سلاست اور روانی ہے تو آمد و الہام بھی قاری کو انگشت بدنداں کر دیتا ہے۔حق تو یہ ہے کہ وہ خود گویا نہیں ہیں ؛ بلکہ نواے سروش برسر محفل ان کی حدی خوانی کر رہی ہے۔
 مولانا ناصری کی نظم گوئی کے روشن پہلو:
    نظم جن عناصر و خیالات کا تقاضا کرتی ہے اور جس تسلسلِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہے ان کا خیال رکھنا لازمی ہے ، حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں ان امور کے ضمن میں تفصیلی گفتگو بھی کی ہے بتدریج زمانہ لوگوں کو اس کی طرف توجہ دی اور پھر اس کی طرف اعتنائی صورت فراہم نہ ہوسکی ، نتیجتاً جس معیار کی نظمیں ہونی چاہیے تھیں وہ اب اردو ادب سے عنقا ہوچکیں؛ بلکہ ستم تویہ ہے کہ نظم کی سادگی میں بھی غزلیاتی تموج و جوش اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ مولانا فضیل احمد ناصری نے اپنی نظموں میں ان اصول و ضوابط کی پابندی کی ہے اور اس کا مکمل خیال بھی رکھا ہے۔ مولانا نے اپنی نظموں میں نہ صرف یہ کہ اس کا خیال رکھا ہے ؛ بلکہ ان اصول و ضوابط کی تہہ تک پہنچ کر اس کوبحسن و خوبی اپنی نظموں میں پرکھا بھی ہے۔نظم کی اپنی خوبیاں ہیں ، یہاں تخیل کی بلند پروازی اور بے جا مبالغہ آرائی نہیں ہوتی ؛ بلکہ عوام الناس کے دل و جگر میں اتر جانے والی ترکیبوں اور سہل الفہم استعاروں © کی بندشیں ہوتی ہیں ، مولانا ناصری کی نظمیں بھی یہی کہتی ہیں:
تھکی نہ قوم ، صدائیں مری تھکاتے ہوئے

ہوا ہے ایک زمانہ مجھے جگاتے ہوئے
وہی تغافل پیہم ، وہی جہاں طلبی

خدا کے نام سے اپنا لہو بچاتے ہوئے
تمہیں نوائے اذاں بھی گراں گذرتی ہے

وہ جنگ گاہ بھی جاتے تھے سر اٹھاتے ہوئے
ہماری مردہ ضمیری کا حال مت پوچھو

فریب کھاتے ہیں اعداکے ، مسکراتے ہوئے
عوام ہی نہیں اب تو جناب واعظ بھی

دکھائی دینے لگے مے کدے کو جاتے ہوئے
ہجوم جلوئہ جاناں عذاب ہے یارب !

بڑے بڑے بھی نظر آئے ڈگمگاتے ہوئے
گنہ کرے ہیں مسلمان بے حجابانہ

حیا انہیں نہیں آئے ہے ، گل کھلاتے ہوئے
نہ وہ مرید برہمن نہ قائلِ زاہد

وہ جس مقام پہ پہنچے تو سر جھکاتے ہوئے
فرنگیانہ تمدن کو چھوڑ دو ورنہ

گروگے چاہِ ہلاکت میں لڑکھڑاتے ہوئے
 قوم کا مرثیہ پڑھنا اور اس پر چاک گریبانی اس کے بس کا روگ و عمل ہے جس کے دل کے گوشہ میں قوم کی پستی اور زبوں حالی کا کرب بے تابانہ رقص ِبسمل کر رہا ہو۔ جس نے قوم کو اغیار کے ہاتھوں لٹتے پٹتے دیکھا ہو اور ساتھ ہی ” انماالمو ¿ منین اخو ©ة“ کا تفسیری ادراک ہو وہ قوم کو اپنے دردجگر کا آئینہ ہی دکھاسکتے ہیں ، مولانا ناصری نے اسی آئینہ کو دکھایا ہے۔ مولانا ناصری نے اپنی نظم میں قوم کی بے حسی اور ’مردہ ضمیری ‘کی جو دل سوز منظر کشی کی ہے وہ کم از کم قوم کے لیے تازیانہ عبرت ہے۔ انہوں نے اس بے حسی اور ’ مردہ ضمیری‘ کا جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ درس عبرت ہے۔ اور پھر کم از کم بحیثیت قوم ہمارے لیے اس سے سبق حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ اعداءو اغیار سے بہ خندہ پیشانی فریب کھانا کسی زندہ قوم کے لیے عار ہی ہے ، مولانا ناصری نے اعداءو اغیار کی فریب دہی کا ذکر کرتے ہوئے قوم کی بے حسی اور درماندگی کا ذکرکرکے نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق