جھوٹ کی اشاعت اور میڈیا کا کر دار
برجستہ:افتخار رحمانی،بصیرت آن لائن
یوں توصحافت ایک مقدس پیشہ تھا اور اگر اس کی تقدیس کے بھرم کے ساتھ اپنایا جائے تو اس کی تقدیس کو گرہن نہیں لگ سکتا ہے؛ لیکن جو مجموعی صورتحال ادھر چند سالوں سے ملک میں بنی ہے وہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے ضیاع کا سبب بن رہی ہے۔ جب عورت کسی رئیس کے کوٹھے کی زینت بن جائے تو اسے عوام ’طوائف‘ کہتے ہیں۔ عورت کا حسن یہ ہے کہ وہ کوٹھے کی زینت نہ ہو؛ بلکہ ’شمع خانہ‘ ہو او ر اگر جب قلم کسی رئیس، حکومت، سیاست داں اور تاجر برادری کا غلام بن جائے تو وہ ’قلم حرفہ‘ ہو جاتا ہے۔ ملک کی صورتحال ابھی کچھ ایسی ہی ہے، ہمارا یہ مقدس شعبہ ’ضمیر فروش‘ ہوچکا ہے اور یہ صورتحال مسلسل مزید اپنی ہولناکی کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو پھر ملک کا پرنٹ میڈیا اس مسابقت میں آگے بڑھ جانے کو اپنی سرخروئی سمجھ رہا ہے۔ اگر 100فیصدی میں سے 1فیصدی میڈیا ہاؤس سچ بولتا ہے تو ایک کے سچ بولنے سے جھوٹ کے منفی اثرات کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور سچی بات تو یہی ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ملک کی صورت حال، گرتی معیشت، نوٹ بندی، جی ایس ٹی،دہشت گردی، فرقہ وارانہ تصادم، فرضی انکاؤنٹر اور ان جیسے لاکھوں واقعات میں جانبداری سے اگر ایک طبقہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو وہیں ملک کی جمہوریت کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔گوری لنکیش کے قتل سے پہلے بھی کئی قتل ہوچکے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اگر اس جھوٹ کی اشاعت میں کوئی مزاحم ہوا تو اس کا حشر عبرتناک ہوگا۔گوری لنکیش کا قاتل ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے جب کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوا کرتے ہیں۔ مقتول صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں سچ بولنے اور جھوٹ کی اشاعت میں مزاحم ہونے کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھونا پڑابالترتیب ان کے اسماء یوں ہیں۔]1[بخشی ترپاٹھی، ہند سماچار 1999،]2[شیوانی بھٹناگر انڈین ایکسپریس 1999، ]3[عرفان حسین آؤٹ لک 1999،]4[ادھیر راج آزاد صحافی 2000،]5[این اے لال،]6[روہلو شان 1999]7[ سلواراج نکیران 2000،]8[براج مانی سنگھ، منی پور نیوز2000،]9[رام چندر چھتر پتی،پورا سچ 2002،]10[راجیش ورما آئی IBN7،2013،]11[ سائی ریڈی دیش بندھو 2013]12[ ترون کمار کنک ٹی وی 2014، ]13[ وی این شرماآندھرا پربھا، 2014،]14[ جگندر سنگھ آزاد صحافی 2015،]15[سندیپ کوٹھاری آزاد صحافی 2015، ]16[سنجے پاٹھک 2015،]17[ہیمنت یادو 2015،] 18[راج دیو رنجن ہندوستان 2016اور ]19[گوری لنکیش،گوری لنکیش پتریکا 2017یہ وہ تفصیلات ہیں جن کے قتل کے بعد شور شرابے ہوئے اور احتجاج و مظاہرے کئے گئے،ان مقتول صحافیوں کی فہرست ابھی بھی گوشہ تاریکی میں ہے جو خود گوشہ گمنامی میں رہا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ جو سچ بولنے کی ہمت کرلیتے ہیں ان کو واٹس ایپ، فیس بک، جی میل اور ٹوئٹر سے دھمکیاں بھی ملتی ہیں کہ وہ چپ رہیں۔بات صرف قتل اور دھمکیوں تک ہی محدور نہ رہی؛ بلکہ اب تو صحافیوں کے قتل پر سرعام جشن منایا بھی جاتا ہے۔ نکھیل ددھیچ جسے خودوزیر اعظم ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں، گوری لنکیش کے قتل پر خوشی مناتے ہوئے کہتا ہے ”ایک کتیا کتے کی موت کیا مری سارے پلے ایک سر میں بلبلا رہے ہیں“ (اس فحش عبارت کو نقل کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی؛ لیکن جب تک نقل نہ کیا جائے عوام کے بڑے طبقہ کو حکومتی آشیرواد اور تلوث کا علم نہیں ہو سکتا) جب ایک عورت کے قتل پر اس طرح کی خوشی منائی جا سکتی ہے تو اندازہ کیجئے جو سچ بولنے کی ہمت کرلیتے ہیں انہیں کن کن طریقوں سے ذہنی تناؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہوگا اس کی واضح مثال معروف اینکر رویش کمار ہیں جنہیں واٹس ایپ گروپ میں طرح طرح سے گالیاں دی جاتی ہیں۔ گروپ سے لیفٹ ہونے پر ”بھاگا.....پکڑ“”مار..... اسے“ جیسے لفظوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ ایک ایسی جمہوریت ہے جہاں تنقید کے بدلے میں گولیاں ملتی ہیں اور جب جی حضوری اورزمانے کے خداؤں کے آگے سجدہ کا انعام ZED PLUSسیکوریٹی کی شکل میں ملتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں کئی ایسے چہرے ہیں جو دن رات ”اہرمن“ کی ”حمد و ثناء“ میں مصروف رہا کرتے ہیں حتی کہ سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر اپنے مجازی خدا کی سلطنت کے بقا کیلئے نا معقول دلیلیں تراشتے ہیں تعجب تو ان کی حرکت پر ہے کہ وہ دلیل کے ذریعہ گفتگو کے بجائے ”دھمکیوں“ پر اتر آتے ہیں؛ کیونکہ ان کو مکمل حکومتی پشت پناہی کا یقین ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور اس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے پرنٹ میڈیا کی خبروں، سرخیوں، جملوں کی ساخت اور خبر لکھنے کا لب و لہجہ نوٹ کیجئے لفظ لفظ جانبداری اور حکومت کی ثناخوانی معلوم ہوگی؛کیونکہ ملک کا میڈیا اپنے فرائض بھول کر دربار میں رقص کرنے والی رقاصہ کا گھنگرو بن چکا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نوٹ بندی سے ہونے والے نقصانات بیان کرنے کے بجائے نفاقا نوٹ بندی کی حمایت میں پورا ”کالا دھن“ کی بازیابی پر مفروضہ افسانہ خوانی ہوتی ہے۔ اے ٹی ایم کی لائنوں میں کھڑے کھڑے 179افراد جاں بلب ہوکر فوت ہوگئے؛ لیکن پھر بھی ملک کا میڈیا ”پاؤں کا گھنگرو“ ہی بنا ہوا نظر آیا۔ حکومتی دعوؤں کی اس وقت ہوا نکل گئی جب آر بی آئی نے اپنی رپورٹ میں 99فیصدی 500اور 1000کے پرانے نوٹ واپس ہونے کی رپورٹ پیش کی؛ لیکن میڈیا کیلئے یہ رپورٹ اہم نہیں تھی؛ بلکہ ہنی پریت کے فرضی افسانے بیان کرنے کا موقعہ ضرور ملا۔اسی میڈیا کی ہلاکت آفرینی کا ذکر کرتے ہوئے ایک امریکی دانش ور ہال بیکر لکھتاہے: ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکی کسی خاص خیال یا نظریہ کو قبول کرلیں تو آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ رائے عامہ کاسہارا لیں، اور پھر یہ کہیں کہ رائے عامہ کایہ کہنا ہے تو پھر ٹی وی یا دیگر میڈیا(ذرائع ابلاغ) اخبارات، سوشل میڈیا پر اس کو شائع کردیں“۔ جب ”برہمنی سودا“کے ساتھ میڈیا پر بھگوا ’آشیرواد‘ بھی ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ غور کرنے کی بات نہیں کہ صرف مسلم مسائل سے ہی بھارتی میڈیاکو دلچسپی کیوں ہے؟ طلاق ثلاثہ پر کافی ”گالم گلوچ‘ بھی کر لی گئی؛ لیکن گرتی معیشت،بڑھتی بھکمری اور رسوا ہوتی بنت حوا کے تشنہ مسائل پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی کیوں؟اولا ملکی مفاد کے رہنما خطوط پر گفتگو کی جانی چاہئے، تاہم میڈیا نے اسے قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ عالمی نقشہ پریک چشم خدا کا تسلط حالیہ دنوں تیزی سے ہو رہا ہے جس کا احساس اب ہر کس و ناکس کو بھی ہوچلا ہے، جس کی ہیئت تو معلوم نہیں ہوتی؛ لیکن اس کا ہیولی ضرور سمجھ میں آتا ہے۔حکومت، سیاست، میڈیا، تجارت، ٹیلی مواصلات، فلم، تحقیق، ہر ایک شعبہ حیات میں فری میسنری کے افراد در آئے ہیں اور اس کے واضح علامات بڑے شہروں سے لیکر قصبوں اور دیہاتوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ملک میں میڈیا کے ذریعہ جو بھی ’ایونٹ‘ انجام دیا جا ر ہا ہے ان میں فری میسنری کے معتمد خاص افرادکی کرشمہ سازی کادخل ہے۔’یک چشم خدا‘ کے حواریوں کا خفیہ منصوبہ میڈیا کے تعلق سے کچھ اس طرح عیاں ہوا:
”ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہوکر پوری دنیا کو اپنے قبضہ میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضہ میں کوئی ایسا مؤثر او رطاقت ور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو مؤثر ڈھنگ سے ظاہر کر سکیں گے اور نہ ہی ہم ا ن کو اس قابل چھوڑیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گذرے بغیر کوئی خبر لوگوں تک پہنچ سکے۔ ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کیلئے یہ ناممکن ہو کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے، ہمارے قبضہ میں ایسے اخبارات و رسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کریں گے خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا انقلاب کی حامی حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی، جنسی اخلاقی انارکی، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت او رحمایت کریں گے، ہم ایسے اسلوب سے خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہم یہودی ایسے دانشوران، ایڈیٹروں، کالم نگاروں اور نامہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے جوبد کردار ہوں اور خطرناک مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہوں“
اس انکشاف کے بعد اس ملک کے میڈیا کے کردار پر نظرڈالئے تمام طرح کا شور شرابہ اور تشنہ مسائل سے قطع نظر صرف ایک ہی موضوع کو ”مباحثہ“ کے قابل سمجھا جانا کن امور کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بداہتا ً عیاں ہے کہ ہم اور آپ جو دیکھنا چاہیں گے وہ نہیں دیکھ پائیں گے؛ بلکہ جو وہ دکھانا چاہتے ہیں وہ دیکھنے پر ہم مجبور ہوں گے۔رویش کمار تو بار بار اسی نکتہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ”آپ ٹی وی پر جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی آپ کو دیکھنے نہیں دیا جائے گا،پھر سوال بھی کرتے ہیں کہ آپ ٹی وی کیوں دیکھتے ہیں؟ ستم تو یہی ہے کہ بھارتیوں کے پاس اسے سمجھنے کے لئے وقت نہیں ہے اور سچی بات تو یہی ہے کہ ابھی سمجھنے کے لئے تیار بھی نہیں؛کیونکہ ”جامِ زعفرانی“ کا نشہ سر چڑھا ہوا ہے۔رکئے! ذرا سوچئے کہ کس نے ”جام زعفرانی“ کا اتنا شدید نشہ سروں پر چڑھا دیا؟ جو اترنے سے بھی نہیں اترتا۔ایک اور انکشاف سے پردہ اٹھتا ہے:
”ٹی وی دیکھنے والوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ دنیا کے 85فیصدی افراد نے ٹی وی کے وجہ سے اپنے کھانے پینے، سونے جاگنے غرض کہ معمولات زندگی بدل لئے، ان میں قوت فیصلہ پر ٹی وی اثر انداز ہوگیا حتی کہ وہ آزادانہ طریقہ سے فیصلہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے،در اصل دماغ او ردل کو برقی لہروں (ELECTRONIC WAVES)کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے اور پھر وہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ وہ نفع نقصان میں تمیز کرسکیں“
حقیقت تو یہی ہے کہ ملک جو دیکھنا چاہتا ہے اسے شاطرانہ چال سے اسے چھپایا جا رہا ہے؛کیونکہ ’یک چشم خدا‘ کو یہی منظور ہے کہ عوامی طبقہ خود پر جبر مسلسل کئے بیٹھے رہیں، اپنے مسائل سے وابستہ سوالات نہ کریں، بھوک اور بیماری سے وہ تڑپتے رہیں؛ لیکن مزاج پرسی نہیں کی جا سکتی؛ بلکہ میڈیا کی باتوں پر ایمان لانا ہوگا، یہی کوشش برسراقتدار طبقہ کی بھی ہے۔ اگر اسے تساوی کے قبیل سے سمجھیں تو کہہ لیجئے کہ جس سرکار نے ۱۱/ سو ارب جس فریضہ کی ادائیگی کیلئے خرچ کیا تھا،میڈیا وہی کچھ تو کر رہا ہے، الا ایک فیصدی کے، شاید اس قلیل تعداد نے اس ملک کی جمہوریت کے بقا اور تحفظ کا حلف لے رکھا ہے۔ وہ غریبوں کے مسائل کو اپنے اسکرین، اخبارات اورتحریر میں اٹھاتے رہیں گے گرچہ مذکورہ بالا19 مقتول صحافیوں کی فہرست میں شامل کیوں نہ ہونا پڑ ے۔ گوری لنکیش کا جرم اتنا تھا کہ انہوں نے فیک نیوز کا ایکسپوز کیا تھا اگر جھوٹ کی تردید اور سچ کی اشاعت میں جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے تو پھر جمہوریت کے محافظوں کی فاتحہ پڑھ لینی چاہئے؛کیونکہ اس مذکورہ صورتحال میں فقظ ”من“ کی سنی جاتی ہے، عوامی تقاضوں سے گریز کیا جاتا ہے۔میڈیا ہر عہد میں ناگزیر رہا ہے؛کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے او رہم نے اس جمہوریت اور آزادی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔میڈیا ضروری ہے ورنہ آزادی اظہار کی آزادی ہمیشہ کیلئے چھین لی جائے گی۔ جوعبارت لکھی جا رہی ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کو جمہوری فضا میں اشاعت و پرواز کی آزادی ملے گی؛کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم صحافت وقلم کے وحشیانہ قتل و کشت کے دور میں جی رہے ہیں، تاہم بولنا پڑے گا ورنہ دہن ہمیشہ کیلئے زبان سے محروم ہو جائے گا۔
برجستہ:افتخار رحمانی،بصیرت آن لائن
یوں توصحافت ایک مقدس پیشہ تھا اور اگر اس کی تقدیس کے بھرم کے ساتھ اپنایا جائے تو اس کی تقدیس کو گرہن نہیں لگ سکتا ہے؛ لیکن جو مجموعی صورتحال ادھر چند سالوں سے ملک میں بنی ہے وہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے ضیاع کا سبب بن رہی ہے۔ جب عورت کسی رئیس کے کوٹھے کی زینت بن جائے تو اسے عوام ’طوائف‘ کہتے ہیں۔ عورت کا حسن یہ ہے کہ وہ کوٹھے کی زینت نہ ہو؛ بلکہ ’شمع خانہ‘ ہو او ر اگر جب قلم کسی رئیس، حکومت، سیاست داں اور تاجر برادری کا غلام بن جائے تو وہ ’قلم حرفہ‘ ہو جاتا ہے۔ ملک کی صورتحال ابھی کچھ ایسی ہی ہے، ہمارا یہ مقدس شعبہ ’ضمیر فروش‘ ہوچکا ہے اور یہ صورتحال مسلسل مزید اپنی ہولناکی کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو پھر ملک کا پرنٹ میڈیا اس مسابقت میں آگے بڑھ جانے کو اپنی سرخروئی سمجھ رہا ہے۔ اگر 100فیصدی میں سے 1فیصدی میڈیا ہاؤس سچ بولتا ہے تو ایک کے سچ بولنے سے جھوٹ کے منفی اثرات کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور سچی بات تو یہی ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ملک کی صورت حال، گرتی معیشت، نوٹ بندی، جی ایس ٹی،دہشت گردی، فرقہ وارانہ تصادم، فرضی انکاؤنٹر اور ان جیسے لاکھوں واقعات میں جانبداری سے اگر ایک طبقہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو وہیں ملک کی جمہوریت کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔گوری لنکیش کے قتل سے پہلے بھی کئی قتل ہوچکے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اگر اس جھوٹ کی اشاعت میں کوئی مزاحم ہوا تو اس کا حشر عبرتناک ہوگا۔گوری لنکیش کا قاتل ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے جب کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوا کرتے ہیں۔ مقتول صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں سچ بولنے اور جھوٹ کی اشاعت میں مزاحم ہونے کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھونا پڑابالترتیب ان کے اسماء یوں ہیں۔]1[بخشی ترپاٹھی، ہند سماچار 1999،]2[شیوانی بھٹناگر انڈین ایکسپریس 1999، ]3[عرفان حسین آؤٹ لک 1999،]4[ادھیر راج آزاد صحافی 2000،]5[این اے لال،]6[روہلو شان 1999]7[ سلواراج نکیران 2000،]8[براج مانی سنگھ، منی پور نیوز2000،]9[رام چندر چھتر پتی،پورا سچ 2002،]10[راجیش ورما آئی IBN7،2013،]11[ سائی ریڈی دیش بندھو 2013]12[ ترون کمار کنک ٹی وی 2014، ]13[ وی این شرماآندھرا پربھا، 2014،]14[ جگندر سنگھ آزاد صحافی 2015،]15[سندیپ کوٹھاری آزاد صحافی 2015، ]16[سنجے پاٹھک 2015،]17[ہیمنت یادو 2015،] 18[راج دیو رنجن ہندوستان 2016اور ]19[گوری لنکیش،گوری لنکیش پتریکا 2017یہ وہ تفصیلات ہیں جن کے قتل کے بعد شور شرابے ہوئے اور احتجاج و مظاہرے کئے گئے،ان مقتول صحافیوں کی فہرست ابھی بھی گوشہ تاریکی میں ہے جو خود گوشہ گمنامی میں رہا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ جو سچ بولنے کی ہمت کرلیتے ہیں ان کو واٹس ایپ، فیس بک، جی میل اور ٹوئٹر سے دھمکیاں بھی ملتی ہیں کہ وہ چپ رہیں۔بات صرف قتل اور دھمکیوں تک ہی محدور نہ رہی؛ بلکہ اب تو صحافیوں کے قتل پر سرعام جشن منایا بھی جاتا ہے۔ نکھیل ددھیچ جسے خودوزیر اعظم ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں، گوری لنکیش کے قتل پر خوشی مناتے ہوئے کہتا ہے ”ایک کتیا کتے کی موت کیا مری سارے پلے ایک سر میں بلبلا رہے ہیں“ (اس فحش عبارت کو نقل کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی؛ لیکن جب تک نقل نہ کیا جائے عوام کے بڑے طبقہ کو حکومتی آشیرواد اور تلوث کا علم نہیں ہو سکتا) جب ایک عورت کے قتل پر اس طرح کی خوشی منائی جا سکتی ہے تو اندازہ کیجئے جو سچ بولنے کی ہمت کرلیتے ہیں انہیں کن کن طریقوں سے ذہنی تناؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہوگا اس کی واضح مثال معروف اینکر رویش کمار ہیں جنہیں واٹس ایپ گروپ میں طرح طرح سے گالیاں دی جاتی ہیں۔ گروپ سے لیفٹ ہونے پر ”بھاگا.....پکڑ“”مار..... اسے“ جیسے لفظوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ ایک ایسی جمہوریت ہے جہاں تنقید کے بدلے میں گولیاں ملتی ہیں اور جب جی حضوری اورزمانے کے خداؤں کے آگے سجدہ کا انعام ZED PLUSسیکوریٹی کی شکل میں ملتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں کئی ایسے چہرے ہیں جو دن رات ”اہرمن“ کی ”حمد و ثناء“ میں مصروف رہا کرتے ہیں حتی کہ سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر اپنے مجازی خدا کی سلطنت کے بقا کیلئے نا معقول دلیلیں تراشتے ہیں تعجب تو ان کی حرکت پر ہے کہ وہ دلیل کے ذریعہ گفتگو کے بجائے ”دھمکیوں“ پر اتر آتے ہیں؛ کیونکہ ان کو مکمل حکومتی پشت پناہی کا یقین ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور اس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے پرنٹ میڈیا کی خبروں، سرخیوں، جملوں کی ساخت اور خبر لکھنے کا لب و لہجہ نوٹ کیجئے لفظ لفظ جانبداری اور حکومت کی ثناخوانی معلوم ہوگی؛کیونکہ ملک کا میڈیا اپنے فرائض بھول کر دربار میں رقص کرنے والی رقاصہ کا گھنگرو بن چکا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نوٹ بندی سے ہونے والے نقصانات بیان کرنے کے بجائے نفاقا نوٹ بندی کی حمایت میں پورا ”کالا دھن“ کی بازیابی پر مفروضہ افسانہ خوانی ہوتی ہے۔ اے ٹی ایم کی لائنوں میں کھڑے کھڑے 179افراد جاں بلب ہوکر فوت ہوگئے؛ لیکن پھر بھی ملک کا میڈیا ”پاؤں کا گھنگرو“ ہی بنا ہوا نظر آیا۔ حکومتی دعوؤں کی اس وقت ہوا نکل گئی جب آر بی آئی نے اپنی رپورٹ میں 99فیصدی 500اور 1000کے پرانے نوٹ واپس ہونے کی رپورٹ پیش کی؛ لیکن میڈیا کیلئے یہ رپورٹ اہم نہیں تھی؛ بلکہ ہنی پریت کے فرضی افسانے بیان کرنے کا موقعہ ضرور ملا۔اسی میڈیا کی ہلاکت آفرینی کا ذکر کرتے ہوئے ایک امریکی دانش ور ہال بیکر لکھتاہے: ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکی کسی خاص خیال یا نظریہ کو قبول کرلیں تو آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ رائے عامہ کاسہارا لیں، اور پھر یہ کہیں کہ رائے عامہ کایہ کہنا ہے تو پھر ٹی وی یا دیگر میڈیا(ذرائع ابلاغ) اخبارات، سوشل میڈیا پر اس کو شائع کردیں“۔ جب ”برہمنی سودا“کے ساتھ میڈیا پر بھگوا ’آشیرواد‘ بھی ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ غور کرنے کی بات نہیں کہ صرف مسلم مسائل سے ہی بھارتی میڈیاکو دلچسپی کیوں ہے؟ طلاق ثلاثہ پر کافی ”گالم گلوچ‘ بھی کر لی گئی؛ لیکن گرتی معیشت،بڑھتی بھکمری اور رسوا ہوتی بنت حوا کے تشنہ مسائل پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی کیوں؟اولا ملکی مفاد کے رہنما خطوط پر گفتگو کی جانی چاہئے، تاہم میڈیا نے اسے قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ عالمی نقشہ پریک چشم خدا کا تسلط حالیہ دنوں تیزی سے ہو رہا ہے جس کا احساس اب ہر کس و ناکس کو بھی ہوچلا ہے، جس کی ہیئت تو معلوم نہیں ہوتی؛ لیکن اس کا ہیولی ضرور سمجھ میں آتا ہے۔حکومت، سیاست، میڈیا، تجارت، ٹیلی مواصلات، فلم، تحقیق، ہر ایک شعبہ حیات میں فری میسنری کے افراد در آئے ہیں اور اس کے واضح علامات بڑے شہروں سے لیکر قصبوں اور دیہاتوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ملک میں میڈیا کے ذریعہ جو بھی ’ایونٹ‘ انجام دیا جا ر ہا ہے ان میں فری میسنری کے معتمد خاص افرادکی کرشمہ سازی کادخل ہے۔’یک چشم خدا‘ کے حواریوں کا خفیہ منصوبہ میڈیا کے تعلق سے کچھ اس طرح عیاں ہوا:
”ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہوکر پوری دنیا کو اپنے قبضہ میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضہ میں کوئی ایسا مؤثر او رطاقت ور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو مؤثر ڈھنگ سے ظاہر کر سکیں گے اور نہ ہی ہم ا ن کو اس قابل چھوڑیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گذرے بغیر کوئی خبر لوگوں تک پہنچ سکے۔ ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کیلئے یہ ناممکن ہو کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے، ہمارے قبضہ میں ایسے اخبارات و رسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کریں گے خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا انقلاب کی حامی حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی، جنسی اخلاقی انارکی، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت او رحمایت کریں گے، ہم ایسے اسلوب سے خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہم یہودی ایسے دانشوران، ایڈیٹروں، کالم نگاروں اور نامہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے جوبد کردار ہوں اور خطرناک مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہوں“
اس انکشاف کے بعد اس ملک کے میڈیا کے کردار پر نظرڈالئے تمام طرح کا شور شرابہ اور تشنہ مسائل سے قطع نظر صرف ایک ہی موضوع کو ”مباحثہ“ کے قابل سمجھا جانا کن امور کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بداہتا ً عیاں ہے کہ ہم اور آپ جو دیکھنا چاہیں گے وہ نہیں دیکھ پائیں گے؛ بلکہ جو وہ دکھانا چاہتے ہیں وہ دیکھنے پر ہم مجبور ہوں گے۔رویش کمار تو بار بار اسی نکتہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ”آپ ٹی وی پر جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی آپ کو دیکھنے نہیں دیا جائے گا،پھر سوال بھی کرتے ہیں کہ آپ ٹی وی کیوں دیکھتے ہیں؟ ستم تو یہی ہے کہ بھارتیوں کے پاس اسے سمجھنے کے لئے وقت نہیں ہے اور سچی بات تو یہی ہے کہ ابھی سمجھنے کے لئے تیار بھی نہیں؛کیونکہ ”جامِ زعفرانی“ کا نشہ سر چڑھا ہوا ہے۔رکئے! ذرا سوچئے کہ کس نے ”جام زعفرانی“ کا اتنا شدید نشہ سروں پر چڑھا دیا؟ جو اترنے سے بھی نہیں اترتا۔ایک اور انکشاف سے پردہ اٹھتا ہے:
”ٹی وی دیکھنے والوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ دنیا کے 85فیصدی افراد نے ٹی وی کے وجہ سے اپنے کھانے پینے، سونے جاگنے غرض کہ معمولات زندگی بدل لئے، ان میں قوت فیصلہ پر ٹی وی اثر انداز ہوگیا حتی کہ وہ آزادانہ طریقہ سے فیصلہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے،در اصل دماغ او ردل کو برقی لہروں (ELECTRONIC WAVES)کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے اور پھر وہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ وہ نفع نقصان میں تمیز کرسکیں“
حقیقت تو یہی ہے کہ ملک جو دیکھنا چاہتا ہے اسے شاطرانہ چال سے اسے چھپایا جا رہا ہے؛کیونکہ ’یک چشم خدا‘ کو یہی منظور ہے کہ عوامی طبقہ خود پر جبر مسلسل کئے بیٹھے رہیں، اپنے مسائل سے وابستہ سوالات نہ کریں، بھوک اور بیماری سے وہ تڑپتے رہیں؛ لیکن مزاج پرسی نہیں کی جا سکتی؛ بلکہ میڈیا کی باتوں پر ایمان لانا ہوگا، یہی کوشش برسراقتدار طبقہ کی بھی ہے۔ اگر اسے تساوی کے قبیل سے سمجھیں تو کہہ لیجئے کہ جس سرکار نے ۱۱/ سو ارب جس فریضہ کی ادائیگی کیلئے خرچ کیا تھا،میڈیا وہی کچھ تو کر رہا ہے، الا ایک فیصدی کے، شاید اس قلیل تعداد نے اس ملک کی جمہوریت کے بقا اور تحفظ کا حلف لے رکھا ہے۔ وہ غریبوں کے مسائل کو اپنے اسکرین، اخبارات اورتحریر میں اٹھاتے رہیں گے گرچہ مذکورہ بالا19 مقتول صحافیوں کی فہرست میں شامل کیوں نہ ہونا پڑ ے۔ گوری لنکیش کا جرم اتنا تھا کہ انہوں نے فیک نیوز کا ایکسپوز کیا تھا اگر جھوٹ کی تردید اور سچ کی اشاعت میں جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے تو پھر جمہوریت کے محافظوں کی فاتحہ پڑھ لینی چاہئے؛کیونکہ اس مذکورہ صورتحال میں فقظ ”من“ کی سنی جاتی ہے، عوامی تقاضوں سے گریز کیا جاتا ہے۔میڈیا ہر عہد میں ناگزیر رہا ہے؛کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے او رہم نے اس جمہوریت اور آزادی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔میڈیا ضروری ہے ورنہ آزادی اظہار کی آزادی ہمیشہ کیلئے چھین لی جائے گی۔ جوعبارت لکھی جا رہی ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کو جمہوری فضا میں اشاعت و پرواز کی آزادی ملے گی؛کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم صحافت وقلم کے وحشیانہ قتل و کشت کے دور میں جی رہے ہیں، تاہم بولنا پڑے گا ورنہ دہن ہمیشہ کیلئے زبان سے محروم ہو جائے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں