نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

زعفرانی خانہ جنگی: یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے؟ ڈاکٹر سلیم خان






زعفرانی خانہ جنگی: یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے؟
  ڈاکٹر سلیم خان
 یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت کاابھی  40 واں بھی نہیں ہوا تھا کہ سہارنپور کا فساد پھوٹ پڑا جس نے دلتو ں کو  ٹھاکروں کے خلاف متحد کرکے بی جے پی سے دور کردیا اور سیکڑہ پورا  ہوتے ہوتے دیگر پسماندہ ذاتوں اور براہمنوں کے درمیان لڑائی لگ گئی ۔ اس طرح براہمن ، راجپوت، پسماندہ اور دلت اتحاد ڈھاک کے پات کی مانند بکھر گیا ۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی تاجپوشی کے 100ویں  دن جو کچھ ہوا وہ بالکل فلمی تھا بلکہ اگر اس کا منظر نامہ سلیم جاوید بھی لکھتے تو ایسا دلچسپ اور سنسنی خیز  نہ ہوتا۔ ان واقعات نے80  کی دہائی کے فلمساز ارجن ہنگو رانی یاد تازہ کردی ۔ وہ بہت باصلاحیت  فنکار نہیں تھا لیکن ہر فن مولیٰ  تھا ۔ فلمسازی کے علاوہ ہدایتکاری  کے فرائض بھی انجام دیتا  اور بوقت  ضرورت منظر نامہ لکھ مارتا لیکن اس کی فلمیں باکس آفس پر خوب کماتی تھیں بالکل مودی جی کی طرح جونہ دانشور ہیں اور نہ  رہنما ئی کی خاص صفات کے حامل  ہیں لیکن  کبھی نیتا بن کر اپنے ساتھیوں کو ڈراتے ہیں تو کبھی ابھینتا بن کر رائے دہندگان کا دل بہلاتے ہیں ۔ کبھی قہقہہ لگاتے ہیں تو کبھی آنسو بہاتے ہیں اوراپنی تمام تر نااہلی کے باوجود ای وی ایم پر خوب دھوم مچاتے ہیں. اتر پردیش میں سنگھ پریوار کے اندر برپا خانہ جنگی اول  تو ہنگورانی کی فلم ’کب ؟ کیوں ؟؟ اور کہاں ؟؟؟‘ کی مانندہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا یہ کیا ہورہا ہے؟ کیوں اور کہاں ہورہا ہے؟ مگر  آگے چل کرجب مطلع صاف ہو نے لگتا ہے تو ہنگورانی کی ایک اور فلم ’قاتلوں کا قاتل‘ یاد آجاتی اس لیے کہ اس کہانی میں ہرکوئی دوسرے کا قاتل نظر آتا ہے۔ یوگی جی کا تو بس  اب پردہ اٹھا ہے  اور اختتام بہت دور ہے  اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ان کا خاتمہ بھی  ہنگورانی کی ایک اور سپر ہٹ فلم  ’ کہانی قسمت کی ‘ کی مانند نشیب و فراز سے مزین  ہوگا کہ جس کا ہیرو دھرمیندر کبھی شرافت کا چولہ اوڑھ لیتا ہے تو کبھی بدمعاش بن جاتا ہے۔ کبھی خوشحالی اس کے قدم چومتی ہے تو کبھی بدحالی اس کو گلے لگاتی ہے ۔ ان تینوں فلموں  میں ارجن ہنگورانی کے ساتھ دھرمیندر ویسے ہی لگا ہوا تھا جیسے مودی جی کے ساتھ امیت شاہ چپکے رہتے ہیں ۔ ایک ایسے ماحول  میں جبکہ ملک  کے اندرگائے کے نام پر ہنگامہ مچا ہوا ہے یوگی جی کی ہندو سینا کے  کچھ دہشت گرد بھارت ماتا کے نام پر اپنے سیناپتیکی سنچری کا جشن مناتےہوئے  گئو ماتا کے مرگھٹ  پر کسی مسلم یا دلت کو بھینٹ چڑھا دیتے  تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔  لیکن گورکھپور  یا وارانسی کے بجائے گاندھی پریوار کے گڑھ رائے بریلی میں  ایک انوکھا ایکشن ڈرامہ  رونما ہوگیا۔  پرتاپ گڑھ کے روہت شکلا، انوپ مشرا، انکوش مشرا،برجیش شکلا اور نریندر شکلا نےآپٹا گاوں کی سابق  سماجوادی اور حالیہ بی جے پی کی گرام  پردھان رام ساہی یادو کے گھر پر حملہ  کردیا۔  گاوں والوں نے دوڑا یا تو فرار ہوتے ہوئے بوکھلاہٹمیں گاڑی بجلی کے کھمبے سے ٹکرا گئی۔  اپنی جان بچانے کے لیے ان  میں سے پانچ باہر نکلے تو بھیڑ نے تین کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا اور  دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔  خوف  کے مارے دو لوگاندر بیٹھے رہے ان کو بھیڑ نے زندہ نذرِ آتش کرکے یوگی جی  کا نام روشن کردیا۔   اس معاملے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ سماجوادی میں براہمن کیوں نہیں آتےَ ؟ اس لیے کہ ہلاک ہونے والے سارے کے سارے متوالے براہمن اورملزمین  وجئے یادو، کرشنا یادو، پردیپ یادو اور رام بہل یادویعنی سب کے سب گوالے۔ یہ سانحہ آپٹا گاوں سے دو کلومیٹر دوراونچاہار پولس تھانے کےعلاقہ میں وقوع پذیر ہوا جس کے انچارج   محمد سرخاب خان  صاحب  ہیں جنہوں نے معروف اداکارافتخار کی کمی پوری کردی ۔ ان کے تصور کے ساتھ پولس کی  وردی اسی طرح   وابستہ  تھی جیسی کہ پردھان سیوک کے ساتھ چائے کی کیتلی جڑی ہوئی ہے ۔  یہ ساتھ تو بالکل ’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے ‘کی طرح  ہےیعنی نتن یاہو اور نریندر مودی کی رام ملائی جوڑی جیسا۔ نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ ’رب نے یہ جوڑی‘ جنت میں بنائی تھی اگر یہ بات درست بھی ہے تو کیا اس لیے بنائی گئی تھی کہ اپنے اقتدار کی خاطر دنیا کو جہنم زار بنا دیا جائے؟ رائے بریلی کی  اس کہانی  کی ہمہ گیریت ملاحظہ فرمائیں  کہ اس میں براہمن، یادو ، یوگی، سونیا،  گاندھی پریوار ، سماجوادی پریوار اور سنگھ پریوار  سب  موجود ہیں یعنی زبردست  مصالحے دارایکشن ڈرامہ جو کسی صورت فلاپ نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ہندوستانی شائقین کی یہ سب سے بڑی کمزوری  ہےاور اس کا فائدہ ہنگورانی  سے لے کرمودی  تک سبھی خوب  اٹھاتے ہیں ۔اس منظر نامہ  میں اور بھی کئی ٹویسٹ ہیں مثلاً روہت شکلا پہلے پرتاپ گڑھ میں دیوارا گاوں  کا پردھان تھا مگر اب رائے  بریلی کے آپٹا گاوں کا پردھان بننا چاہتا ہے۔ اس لیے ظاہر اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ پردھان کا بیٹا رام بہل یادو ہے۔  یہ ایسا ہی جیسے مودی جی کسی زمانے میں گجرات کے وزیراعلیٰ تھے لیکن جب انہوں نے دہلی میں وزیراعظم بننے کا ارادہ کیا تو اڈوانی جی ان کی راہ کا روڑا بن گئے۔ روہت  کے خلاف  پہلے ہی قتل کی کوشش سمیت ۸ مقدمات پہلے سے درج ہیں  اس لیے اس کا تشدد پر اتر آنا قرین قیاس ہے۔ اس کہانی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آپٹا گاوں میں  لکھنو کے اے ڈی جی  ابھئے کمار پرشاد کی ایک پشتینی زمین ہے۔ اس  زمین گھر بنانے کا ٹھیکہ  روہت شکلا نے لے رکھا ہے۔ اتر پردیش میں چونکہ اعلیٰ  افسران کا تقرر وزیراعلیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے اس لیے ابھئے کمار  ضرور یوگی کے منظورِ نظر ہوں گے اور ان کے توسط سے روہت کو یوگی مہاراج کا آشیرواد بھی حاصل ہوگا۔  مڈبھیڑ سے متعلق حسب توقع متضاد بیانات سامنے آئے ہیں ۔  روہت کے بھائی دیویش کا داماد آپٹا میں رہتا ہے۔  دیویش کا کہنا ہے کہ  وہ اپنے بھائی کے ساتھ مذکورہ زیر تعمیر عمارت کی جانب  جارہاتھا کہ رام بہل یادو نے اپنے بھائیوں کے ساتھ ان پر گولی چلا دی۔ روہت چونکہ گاڑی چلا رہاتھا اس لیے اس کا توازن بگڑ گیاگاڑی کے اندر سے  نکل کرویرو پانڈے  اور دیویش شکلا تو جان بچا کربھاگ گئےمگرنریندر ، انوپ  اور انکوش کوبھیڑ نے لاٹھی اور سریا سے  مار ڈالا۔ اس طرح گویا گرام  پردھان کے تینوں بیٹوں کے خلاف ایک چشم دید گواہ نے رپورٹ لکھوادی لیکن سوال یہ ہے اپنی جان بچا بھاگنے والے نے یہ سب کیسے دیکھ لیا کہ اس کے پیچھے کیا ہورہاہے؟  ویسے ارجن ہنگورانی اور اس کے ناظرین ان معمولی غلطیوں پر توجہ نہیں دیتے اور نہ آج  کل کی عدالت دھیان دیتی ہے۔ اس کا کام تو ہیرو کے حق میں ویلن کے خلاف فیصلہ سنادینا ہے ۔ شواہد کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہیں اس میں  کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ انتخابات کا کمال یہ ہے کہ وہ راتوں رات اکھلیش جیسے ہیرو  کوویلن اور ادیتیہ ناتھ جیسے راون کو رام بنادیتے ہیں ۔ گرام پردھان رام شری یادو اپنے بچوں پر لگائے جانے والے قتل کےالزام کی تردید کرتی  ہیں ۔ اب ہر کوئی ’مدرانڈیا‘ تو نہیں ہوسکتی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پردۂ سیمیں پر اپنے بیٹے  سنیل دت پر گولی چلانے والی مدھوبالا  اور سنیل دت کے حقیقی  بیٹے سنجے دت کو سزا کاٹنی پڑی۔   خیررام شری کے مطابق روہت اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ ان کے گھر آیا اور 3 لاکھ روپیوں کا مطالبہ کیا۔ ان بیٹوں نے  جب معذوری ظاہر کی تو روہت اور اس کے ساتھیوں نے مارپیٹ شروع کردی۔ گاوں والےجب  اپنے پردھان کو بچانے کے لیے دوڑ ے تو حملہ آور بھاگ کھڑے ہوئےاوران کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔  ا گر اکھلیش یادو وزیراعلیٰ ہوتے تو کوئی یہ نہ پوچھتا کہ گاڑی کو آگ کیسے لگی اور باہر نکلنے والوں کی موت کیسے واقع ہوئی؟  لیکن اب تو گاوں کا چیف میڈیکل افسر دنیش کمار سنگھ یوگی کا ذات بھائی یعنی راجپوت ہے۔  اس نے تصدیق کی کہ گاڑی کے اندر سے ملنے والی لاشیں  مکمل طور پر جل چکی ہیں  اور باہر مرنے والوں کی موت کسی ہتھیار کی چوٹ سے واقع ہوئی ہے۔ زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں کا  بیان معتدل ہے ان کاکہنا  ہے کہ یادو برادران نے یہ کہہ کر کام رکوادیا تھا کہ وہ غیر قانونی ہے اور وہیں سے لڑائی شروع ہوئی ۔ اتر پردیش میں فی الحال ایک راجپوت وزیراعلیٰ کی کرسی سنبھالے ہوئے ہے اور اس کے دو نائب ہیں جن میں سے برجیش پاٹھک براہمن اور سوامی پرشاد موریہ مودی جی کی طرح پسماندہ  ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ موریہ کے بارے میں کہا جاتا  ہے کہ وہ اخبار اور چائے بھی بیچتےتھے ۔ ان دونوں نائبین  کی رائے ذات پات کی خطوط پرمنقسم اور متضاد ہے۔پاٹھک اور موریہ چونکہ  وزیراعلیٰ کی دوڑ میں شامل تھے اس لیے ادیتیہ ناتھ کی بدنامی سےان کا سیاسی مفاد بھی وانستہ ہے۔  موریہ کے مطابق مقتول خطرناک قسم کے مجرم پیشہ بدمعاش تھے ۔ وہ  سماجوادی پارٹی  کےبراہمن رکن  اسمبلی منوج پانڈے کے ایماء پر آپٹا کی پردھان کو سبق سکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے کیونکہ اسمبلی انتخاب سے قبلرام شری  یادو سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئی تھیں۔  موریہ  پارٹی کے صدر رہے ہیں  خود ان کے اوپر دس مقدمات درج ہیں اس لیے جرائم کی دنیا سے وہی سب سے زیادہ واقف ہیں۔   موریہ نے مہلوکین کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل پیش کرکے پسماندہ ذاتوں کی خوشنودی حاصل کی۔ موریہ نےجس منوج پانڈے پرالزام لگایا  ہےوہ نہ صرف بی جے پی کی حریف سماجوادی پارٹی کا رکن  اسمبلی ہےبلکہ ذات سے براہمن ہے ۔ اب اسمبلی کے اندر ان کی کرسی کےنیچے دھماکہ خیز مادہ برآمد ہوا ہے۔ ادیتیہ ناتھ نے اسے خطرناک ٹھہراتے ہوئے این آئی اے کے ذریعہ اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا تعلق  کیشو پرشاد موریہ سے بھی ہوسکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ این آئی اے ان سے بھی تفتیش کرے اور اگر اس طرح کوئی تعلق نکل آئے تو اس پر سخت اقدام کیا جائے اس لیے کہ ایک رکن اسمبلی کا دوسرے کے خلاف اس حد تک چلے جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ویسے تو نیویارک ٹائمز نے بجا طور پر  یوگی آدیتیہ ناتھ کو ایک دہشت گرد ہندو  یوا واہنی کا دہشت گرد سربراہ قرار دیا گیا ہے اس کے باوجود اگر خدا نہ خواستہ ایوان اسمبلی میں بی جے پی کی آپسی رنجش کے سبب  بھی کوئی دھماکہ ہوجاتا تو لازماً اس کا الزام مسلمانوں پر لگا کر انہیں بدنام کیا جاتا ۔  ممکن  ہے  مہاراشٹر کے براہمن وزیراعلیٰ نریندر فردنویس نے اپنے پسماندہ  حریف  ایکناتھ کھڑسے کو ٹھکانے لگایا وہی حشر  کیشو پرشاد موریہ سے بھی کیا جائے۔ موریہ کا تقرر واجپائی نامی براہمن کو ہٹا کر کیا گیا تھا اس لیے براہمن سماج ان سے پہلے ہی خفا ہے لیکن اترپردیش میں جہاں پسماندہ ذاتوں کی آبادیجملہ براہمنوں ، راجپوتوں اور دلتوں کل تعداد سے زیادہ ہے امیت شاہ نے موریہ کو بی جے پی  کا صوبائی صدر بناکر سماجوادی کے قلعے میں دراڑ دال دی اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی و صوبائی انتخاب میں زبردست کامیابی درج کرائی لیکن جب وزیراعلیٰ بنانے کا وقت آیا تو بی جے پی براہمنوں اور پسماندہ ذاتوں کے درمیان پھنس گئی۔ اس  مشکل سے نکلنے کے لیے بیچ کی بلی  راجپوت  کوزمام کار  تھما دی گئی ۔ اس چال سے براہمنوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان  عداوت ختم نہیں ہوئی اور اس واردات سے کھل کر سامنے آگئی۔  صوبائی وزیر قانون برجیش پاٹھک نے اپنے حریف  کیشوپرشادموریہ کی پرزور تردیدکرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کہہ کرکہ مقتول جرائم پیشہ تھے تحقیقات کو متاثر کرنا غلط ہے۔ جو لوگ مجرموں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں ان کو بخشا نہیں جائیگا۔ ‘‘ یہ نہ صرف موریہ پر الزام بلکہ دھمکی ہے۔ وزیرقانون  نے مرنے والوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مہلوکین مجرم نہیں تھے ۔ ان کو ایک خاص مقام پر بلا کر ہلاک کردیا گیاان کو مجرم قرار دینے والے تحقیق و تفتیش کو متاثر کررہے ہیں ‘‘۔ بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کےبراہمن  قومی جنرل سکریٹری ابھیجات مشرا نے بھی مو ریہ کے بیان کو مذمت  کرکے یہ ثات کردیا کہ یہ معاملہ اب دو رہنماوں کی ذاتی رنجش تک محدود نہیں ہے وہ بولے ’’یہ تو عدالت طے کرے گی کہ کون مجرم ہے اور کون نہیں ہے؟ ہندوستان کا دستور کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا ‘‘۔ مشرا جی کی یہ بات تو درست ہے لیکن جس صوبے میں وزیراعلیٰ کی اپنی قائم کردہ ہندو یوا واہنی اور رومیو بریگیڈ کو قانون کے ساتھ کھلواڑ کی کھلی چھوٹ ہے۔جہاں آئے دن مسلمانوں اور دلتوں  پر بھیڑ حملے کررہی ہے مشرا جی کی زبان پر یہ الفاظ  کچھ عجیب سے لگتے ہیں۔ یہ دستور ی  تحفظ  مشرا اور پاٹھک کو اس وقت یاد آیا جب  خود ان کا سماج قتل و غارتگری کا شکار ہوا ورنہ تو قوم پرستی کے نام پر سارا ظلم و ستم نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ تھا۔بات  اب  بیان بازی سے آگے بڑھ چکی  ہے براہمن مہاسبھا نے موریہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےموریہ کا پتلا نذرِ آتش کیا اور8 دن کے اندر انہیں برخواست کرنے کا  پرزورمطالبہ کیا ہے بصورت دیگر صوبائی سطح پر احتجاج کی دھمکی دی ہے ۔ اس کے جواب میں ادیتیہ ناتھ نے مہلوکین کے پسماندگان کے لیے پانچ لاکھ کی مدد کا اعلان کرکے 10 دنوں کے اندر مجرمین کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا لیکن مایاوتی نے اس پر سی بی آئی کے ذریعہ تفتیش کرائے جانے کا مطالبہ کردیا جو یوگی سرکار پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ہندتواپریوار کے اندر ذات پات کی لڑائی نئی نہیں ہے۔ صوبائی انتخاب سے قبل  ٹکٹ کی تقسیم کے وقت گورکھپور، دیوریا، غازی پور، وارانسی اور لکھنو کے اندر اس قسم کی خانہ جنگی ظاہر ہوچکی ہے۔ ایک زمانے میں  براہمن سماج بی جے پی کے اس رویہ سے مایوس ہوکر بہوجن سماج پارٹی کی آغوش میں چلا گیا تھا  لیکن وہاب بی جے پی میں لوٹ آیا ہے۔ اس معاملے کے بعد مایاوتی کو پھر سے امید کی کرن نظر آئی ہے۔  انہوں نے براہمنوں کے قتل کو جنگل راج کی جانب ایک قدم قرار دیا اور اپنے ارکان اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ ادیتیہ ناتھ کے ذریعہ براہمنوں کو نظر انداز کرنے کا معاملہ زور شور کے ساتھ ایوان میں اٹھائیں ۔ مایاوتی نے اپنی پارٹی کے براہمن  رہنما ستیش مشرا کو مہلوکین کے پسماندگان سے ملاقات کرنےکا حکم دیا اور براہمنوں پر ہونے والے مظالم کو سہارنپور میں دلتوں کے ساتھ  کئے جانے والےسلوک سے مماثل بتایا۔ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍ مایاوتی پھر سے 17 فیصد براہمنوں کو رجھانے کی فکر میں ہیں ۔ امیت شاہ کو سنگھ پریوار نے عصر حاضر کے عظیم ترین ’سوشیل انجینیر‘ کے لقب سے نوازہ  ہے کیونکہ وہ ہندو سماج کےدو ذاتوں میں جھگڑا لگا کر اس میں سے ایک کو اپنے ساتھ جوڑلیتے ہیں ۔ بہار کے اندر پہلے پاسوان کو توڑ کر اپنے ساتھ جوڑا اور اس کے بعد  مانجھی کو بھی جوڑ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ خشواہا تو پہلے ہی اپنے ساتھ ہے اس طرح بات بن جائیگی لیکن جب نتیش اور لالو ساتھ ہوگئے تو بات بگڑ گئی۔ شاہ جی کو خوف تھاکہ کہیں اترپردیش میں اکھلیش اور مایا ایک ساتھ نہ ہوجائیں ۔ گوناگوں وجوہات کی بناء پر ایسا نہ ہوسکا اور شاہ جی کامیاب ہوگئے ۔ انہوں نے ایس پی کے اندر غیر یادو پسماندہ ذاتوں کوالگ کرکے اپنے ساتھ کیا اور بی ایس پی میں سے غیر جاٹو لوگوں کو توڑ کر اپنے ساتھ جوڑا ۔ وہ تو خیر مسلمان نہیں ٹوٹے ورنہ ایس پی اور بی ایس پی کا صفایہ ہوجاتا ۔ اس  جوڑ توڑ سیاست سے بی جے پی کو عارضی کامیابی تو مل گئی لیکن یہ پائیدار نہیں ہوسکتی ۔ اتر پردیش میں اب بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ضابطہ نافذ ہے اس لیے ہر طبقہ سیاسی لاٹھی کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرتا رہتا ہے ایسے میں اپنی مظلومیت کا رونا دھونا اور اپنی تصاویرو ویڈیو سماجی رابطوں کی سائیٹس پر پھیلانا بھینس کے آگے بین بجانے جیسا ہے۔ایسا کرنے سے مایوسی اور غم و غصے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔  اس صورتحال میں صبرو سکون کے ساتھ  اپنی صفوں کو درست کرکے دشمن کی کمزوری کا فائدہ اٹھانا شاہِ کلید ہے اور وہ کسی  امیت شاہ  یا مایاوتی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ کھیل ملک میں موجود سارے کھلاڑی  کھیل سکتے ہیں۔ اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ارجن ہنگورانی کی فلم’ کھیل کھلاڑی کا‘  مرکزی موضوع ظلم و جبر اور انتقام ہے ۔ یہ کھیل فلمی پردے سے لے کر سیاسی منظر نامےتک پھیلا ہوا ہے ۔ اسی کے پیش نظر مختلف  سیاسی محاذ بنتے اور بگڑتے ہیں جنہیں دانشور  خوبصورت ناموں سے منسوب کرتے رہتے ہیں ۔ہندوسماج  کی سب سے بڑی کمزوری ذات پات کی تفریق اور براہمنوں کی آرزو مندی ہے۔  ماضی میں  اس  کافائدہ بی ایس پی اٹھا چکی ہے اور پھر سے یہی حکمتِ عملی اختیار  کررہی ہے۔  ایسے میں مسلمانوں کی بصیرت بی جے پی کی بساط الٹ سکتی ہے۔  ملت کی تقویت کے لیے سیاسی انتقام اور سماجی احتجاج کاراستہ کھلا ہوا ہے اوراس پر کامیابی کے روشن امکانات ہیں  ورنہ محض اپنی مظلومیت کا ماتم کرنے والوں سےشاعر سوال کرتا ہے ؎ 
یہ انتقام ہے ؟ یا احتجاج ہے؟ کیا ہے؟  
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے

#یہ_مصنف_کی_ذاتی_رائے_ہے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق