نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فیک نیوز کے زمانے میں


تحریر: گوری لنکیش
ترجمہ: افتخار رحمانی
اس ہفتہ کے ایشوسے متعلق میرے دوست ڈاکٹر واسو نے گوئے بلز کی طرح ہندوستان میں فیک نیوز بنانے کی فیکٹری کے متعلق لکھا ہے جھوٹ کی ایسی فیکٹریاں عموما مودی بھکت ہی چلاتے ہیں ـ جھوٹ کی فیکٹریوں سے جو نقصان ہورہا ہے میں اس سے متعلق اپنے اداریہ میں واضح کرنے کی کوشش کروں گی ـ ابھی "گنیش چترتھی" تھی اس دن سوشل میڈیا میں ایک افواہ پھیلائی گئی اس افواہ کی اشاعت کے پس پردہ سنگھ کے ہی حامی تھے ـ یہ افواہ کیا ہے؟ افواہ یہ ہے کہ کرناٹک سرکار جہاں حکم دے گی وہیں گنیش کی مورتی نصب کرنا ہوگی، اس سے قبل دس لاکھ رقم ڈپازٹ کرنی ہوگی، مورتی کی لمبائی کتنی ہوگی اس کے لئے حکومت سے اجازت لینی ہوگی، دوسرے مذاہب (اسلام)  کے ماننے والے جہاں رہتے ہیں ان علاقوں اور راستوں سے مورتی وسرجن کے لئے نہیں جاسکتے اور پٹاخے ،آتش بازی وغیرہ بھی نہیں کرسکتے ـ سنگھ کے حامیوں نے اس جھوٹ کی اتنی شدت کے ساتھ  اشاعت و تشہیر کی کہ بالآخر کرناٹک پولس کے اعلی حکام کو پریس کانفرنس کے ذریعہ مبینہ پروپیگنڈہ کی تردید کرنی پڑی کہ حکومت نے ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے؛ بلکہ یہ سب جھوٹ ہے ـ اس افواہ کے سررشتہ معلوم کرنے کی جستجو کی تو ہماری جستجو postcard.news نامی ویب سائٹ پر جاکر ختم ہوئی ـ postcard.news نامی ویب سائٹ کٹر ہندوتوا وادی کی ہے ـ اس کا کام ہی ہر روز فیک نیوز بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلانا ہے ـ 11 اگست کو postcard.news میں ایک سرخی لگائی گئی " کرناٹک میں طالبان حکومت " اس سرخی کے ذریعہ پورے صوبہ میں افواہ اور جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی گئی اور سنگھ کے حامی اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے ـ جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے سدھارمیا حکومت سے نالاں رہا کرتے ہیں انھوں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا، علاوہ ازیں تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام نے بھی بغیر فکر و تدبر کے اسے درست مان لیا، اپنی قوت سماع، قوت شامہ نیز دماغی صلاحیتوں کے درست استعمال سے گریزاں بھی رہے ـ 
 گذشتہ ہفتہ جب عدلیہ نے رام رحیم نامی ایک ڈھونگی بابا کوعصمت دری کے مقدمہ میں سزا سنائی تواس ڈھونگی کے ساتھ بھاجپا کے کئی لیڈروں کی تصویر سوشل میڈیا میں وائرل ہونے لگی ـ اس ڈھونگی بابا کے ساتھ مودی کے ساتھ ساتھ ہریانہ کے کئی بھاجپائی ممبران اسمبلی کی تصویر اور ویڈیوز بھی وائرل ہونے لگے، اس سے سنگھ اور اس کا مبینہ کنبہ پریشان ہوگیا اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے گرمیت رام رحیم کے بغل میں کیرل کے سی پی ایم وزیراعلیٰ پن رائی وجین کے بیٹھے ہونے کی تصویر بھی وائرل کردی، یہ تصویر فوٹو شاپ کی خرافات کی منھ بولتی تصویر تھی ـ اصل تصویر میں کانگریس کے لیڈر اومن چانڈی بیٹھے ہیں؛ لیکن ان کے دھڑ پر وجین کا سر جوڑ کر آر ایس ایس کی طرف سے پھیلایا گیا ـ شکر ہے کہ سنگھ کا یہ طریقۂ عمل بری طرح ناکام ثابت ہوا؛ کیوں کہ کچھ لوگ فورا ہی اصل تصویر تلاش کر لے آئے اور سوشل میڈیا پر سچائی واضح کردی ـ دراصل گذشتہ سال آرایس ایس کے فیک نیوز پروپیگنڈہ کو روکنے یا اس کی سچائی سامنے لانے والا کوئی نہیں تھا؛ لیکن اب بہت سے لوگ سنگھ کی دروغ گوئی کو واشگاف کرنے میں لگ گئے ہیں، یہ خوش آئند امر ہے ـ پہلے اس طرح کے فیک نیوز ہی شائع ہوا کرتے تھے؛ لیکن ان فیک نیوز کے ساتھ ساتھ اصلی نیوز بھی آنے لگ گئے ہیں اور عوام پڑھ اور سمجھ بھی رہے ہیں ـ مثال کے طور پر 15 اگست کے دن لال قلعہ کی فصیل سے مودی نے جو تقریر کی اس مذکورہ تقریر پر ایک تجزیہ خوب وائرل ہوا، دھروراٹھی نے اس کا تجزیہ کیا تھاـ دھروراٹھی دیکھنے میں تو ایک کالج کے طالب علم جیسا ہی ہے، تاہم وہ گذشتہ کئی ماہ سے مودی کی دروغ گوئی کی پول سوشل میڈیا پر کھول دیتا ہے ـ یہ ویڈیو ہم جیسے لوگوں نے ہی دیکھا تھا عام آدمی تک یہ ویڈیو نہیں پہنچا تھا؛ لیکن 17 اگست کو ویڈیو ایک دن میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں تک پہنچ چکا تھا ـ دھروراٹھی نے بتایا کہ راجیہ سبھا میں بوسی بسیا ( مصنفہ عموما مودی کو بوسی بسیا ہی لکھا کرتی تھی جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جب بھی منھ کھولیں گے جھوٹ ہی بولیں گے) کی سرکار نے راجیہ سبھا میں ایک ماہ قبل کہا تھا کہ 33 لاکھ نئے محصول دہندہ آئے ہیں اس سے بھی پہلے وزیر اقتصادیات ارون جیٹلی نے 91 لاکھ نئے محصول دہندگان کے جڑنے کی بات کہی تھی، تاہم آخر میں اقتصادی سروے میں یہ کہا گیا کہ صرف 5 لاکھ 40 ہزار نئے محصول دہندگان ہی جڑے ہیں تو بالآخر اس میں سچائی کیا ہے راٹھی نے اپنے ویڈیو میں اسی سوال کو قائم کیا ہے ـ
  آج کا مین اسٹریم  میڈیا مرکزی حکومت اور بھاجپا کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار اور دیگر تفصیلات کو منزل من اللہ تصور کرتے ہوئے من و عن نشر کر رہا ہے ـ مین اسٹریم کے لئے حکومت کا تلفظ کردہ ہر ایک حرف ویدک اشلوک ہے ـ اس میں بھی جو ٹی وی چینلس ہیں وہ اس کام میں دس قدم آگے ہی ہیں ـ بطور مثال، جب رام ناتھ کووند نے صدر جمہوریہ کا حلف اٹھایا تو اس دن سارے انگریزی چینلوں نے یہ خبر چلائی کہ صرف ایک گھنٹہ میں ٹوئٹر پر صدر جمہوریہ کے فالوور کی تعداد 30 لاکھ سے متجاوز ہوگئی ہے ـ ان کا واضح عندیہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد صدر جمہوریہ کی حمایت کر رہے ہیں ـ بہت سارے ٹی وی چینل آج آر ایس ایس کی ٹیم کا ایک حصہ بن کر رہ گئے ہیں اور اسی کے لئے کام بھی کرتے ہیں، جب کہ سچائی تو یہ ہے کہ اس دن سابق صدر جمہوریہ کا سرکاری اکاؤنٹ نئے منتخب صدر جمہوریہ کے نام تبدیل ہوگیا تھا علاوہ ازیں ایک اور قابل غور امر یہ بھی ہے کہ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو بھی 30 لاکھ سے بھی زائد افراد فالو کرتے تھے ـ  آج سنگھ کے ذریعہ  اس طرح پھیلائے ہوئے فیک نیوز کی سچائی عوام تک سامنے لانے میں  بہت سے لوگ آگئے ہیں ـ دھروراٹھی ویڈیوکے ذریعہ جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں لگے ہیں تو پرتیک  سنہا altnews.in نام کی ویب سائٹ کے ذریعہ یہ کام کر رہے ہیں ـ ہوکس  اسلیر، بوم اور فیک چیک نام کی ویب سائٹ بھی یہی کام کر رہی ہے ساتھ ہی ساتھ thewire.in، scrool.in وغیرہ جیسی ویب سائٹ بھی متحرک ہیں ـ میں نےجن لوگوں کے نام بتائے ہیں ان لوگوں نے حال ہی میں کئی فیک نیوز کی حقیقت کو اجاگر کیا ہے ـ ان کے کام سے سنگھ کے حامی بہت نالاں ہیں اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ پیسے کیلئے کام نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ ان کا ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ فاشسٹ طاقتوں کی مبینہ کذب بیانی اور دروغ سامانی کو بے نقاب جائے ـ کچھ ہفتہ قبل بنگلور میں موسلادھار بارش ہوئی اس وقت آرایس ایس حامیوں نے ایک تصویر وائرل کرائی جس کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ناسا نے مریخ پر لوگوں کے چلنے کی تصویر جاری کی ہے ـ بنگلور نگر پالیکا B.B.M.C نے اس کی تردید کی کہ مذکورہ تصویر مریخ کی نہیں  ہے ـ سنگھ کی نیت یہ تھی کہ اسے مریخ کی تصویر ثابت کرکے بنگلور کی تضحیک کی جائے جس سے عوام یہ تأثر قائم کریں کہ سدارمیا حکومت نے کوئی کام کیا ہی نہیں ہے ، یہاں کی سڑکیں خستہ اور بدحال ہیں؛ لیکن یہ تصویر سنگھ لئے ہی باعث ذلت ثابت ہوئی؛  کیونکہ یہ تصویر بنگلور کی نہیں تھی؛ بلکہ مہاراشٹر کی تھی جہاں بھاجپا کی حکومت قائم ہےـ 
 حال ہی میں جب مغربی بنگال میں فسادات ہوئے تھے تو آرایس ایس کے حامیوں نے دو تصویر جاری کئے ایک تصویر کا کیپشن تھا " بنگال جل رہا ہے " اس مذکورہ تصویر میں املاک میں آگ زنی کا منظر تھا، دوسری تصویر میں ایک خاتون کی ساڑی کھینچی جارہی ہے اور کیپشن میں درج ہے " بنگال میں ہندو خاتون پر ظلم ہو رہا ہے " تاہم بہت جلد ہی اس کی سچائی سامنے آگئی ـ پہلی تصویر 2002 میں رونما گجرات فساد کی تصویر ہے جب بوسی بسیا (نریندرمودی) وہاں کے وزیراعلیٰ تھے اور دوسری تصویر ایک بھوجپوری فلم کا سین تھی، جو حالیہ چند سال قبل ریلیز ہوئی تھی ـ صرف سنگھ ہی نہیں؛ بلکہ بھاجپا کے مرکزی وزیر بھی ایسے فیک نیوز پھیلانے میں پوری مہارت رکھتے ہیں ـ مثال کے طور پر دیکھئے کہ بھاجپا کے مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ایک فوٹو شیئر کیا جس میں کچھ لوگ ترنگا میں آگ لگا رہے تھے فوٹو کیپشن میں لکھا تھا " یوم جمہوریہ کے موقعہ پر حیدرآباد میں ترنگا کو نذرآتش کیا جا رہا ہے"  ابھی گوگل امیج سرچ ایک نیا ایپ متعارف ہوا ہے جس کی معرفت آپ کسی بھی تصویر کو اس کی سچائی جان سکتے ہیں کہ تصویر کب کی اور کہاں کی ہے ـ پرتیک سنہا نے یہی کام کیا ہے اس ایپلیکیشن کے ذریعہ گڈکری کے اشتراک کردہ تصویر کی حقیقت عیاں کی، معلوم ہوا کہ مذکورہ تصویر حیدرآباد کی نہیں ہے؛ بلکہ پاکستان کی ہے جہاں کسی ممنوعہ کالعدم شدت پسند تنظیم کے افراد بھارت مخالف نعرہ لگاتے ہوئے ترنگا میں آگ لگا رہے ہیں ـ اسی طرح ایک ٹی وی مباحثہ میں بھاجپا کے ترجمان سنبت پاترا نے کہا کہ سرحد پر فوجیوں کو ترنگا لہرانے میں کتنی دشواریاں پیش آ رہی ہیں پھر جے این یو میں ترنگا لہرانے میں کون سا مسئلہ ہے؟ یہ سوال پوچھ کر سنبت پاترا نے ایک تصویر دکھائی، بعد میں پتہ چلا کہ یہ معروف تصویر ہے؛ لیکن اس میں بھارتی فوجی نہیں ہیں؛ بلکہ امریکی فوجی ہیں جو دوسری عالمی جنگ میں جب جاپان کے ایک جزیرے پر قبضہ کیا تھا تب انھوں نے اپنا جھنڈا لہرایا تھا ـ مگر فوٹو شاپ کے ذریعہ بھاجپا ترجمان عوام کو چکمہ دے رہے ہیں، ان کا یہ فعل ان کے لئے مہنگا ثابت ہوا جب ٹوئٹر صارفین نے ان کا جم کر مذاق اڑایا ـ مرکزی وزیر پیوش گوئل نے حال ہی میں ایک تصویر شیئر کی، لکھا تھا کہ بھارت کے 50,000کیلومیٹر راستوں پر حکومت  نے 30 لاکھ LED بلب لگوائے ہیں، مگر جو تصویر انھوں نے لگائی وہ جعلی نکلی یہ تصویر بھارت کے کسی خطہ کی تھی ہی نہیں؛ بلکہ جاپان کے 2009 کی تھی ـ اسی گوئل نے پہلے بھی ایک ٹوئیٹ کیا تھا کہ کوئلے کی فراہمی میں حکومت نے 25,900کروڑ روپے کی بچت کی ہے اس ٹوئیٹ کی تصویر بھی جعلی نکلی ـ چھتیس گڈھ کے P.W.D کے وزیر راجیش مونت نے ایک پل کی تصویر شیئر کی اور اپنی حکومت کی کامیابی بتائی، اس ٹوئیٹ کو دوہزار لوگوں نے لائک بھی کیا تھا؛ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ تصویر چھتیس گڈھ کی نہیں ہے؛ بلکہ ویتنام کی ہے ـ اس طرح کی جعلی خبروں کی اشاعت و ترسیل میں آرایس ایس نواز اور بھاجپائی لیڈر بھی کم نہیں ہیں کرناٹک کے ایم پی پرتاپ سنہا نے ایک رپورٹ شیئر کی اور کہا کہ یہ خبر ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوچکی ہے، اس کی سرخی یہ تھی کہ " ہندو لڑکی کو مسلمان نے چاقو مار کر ہلاک کردیا ہے " دنیا کو رواداری کا درس دینے والے پرتاپ سنہا نے سچائی جاننے کی زحمت بھی نہیں کی اور کسی دوسرے اخبار نے اسے شائع بھی نہیں کیا تھا؛ بلکہ فوٹو شاپ کے ذریعہ کسی دوسرے خبر پر عنوان لگا کر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا تھا اور اس کے لئے ٹائمس آف انڈیا کے نام کا استعمال بھی کیا ـ جب ہنگامہ ہوا کہ یہ فیک نیوز ہے تو ممبر پارلیامنٹ نے اسے ڈیلیٹ کردیا اور معافی یا اظہار ندامت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی، جب کہ یہ عمل مکمل فرقہ واریت پر مبنی ہے، جیسا کہ میرے دوست ڈاکٹر واسو نے اس بار کے کالم میں لکھا ہے ـ میں نے بھی سہوا ایک جعلی تصویر شیئر کی، گذشتہ ہفتہ پٹنہ میں منعقدہ "بھاجپا بھگاؤ دیش بچاؤ " ریلی کی تصویر لالو یادو نے فوٹو شاپ کے ذریعہ شیئر کی تھی، تھوڑی دیر میں دوست ششی دھر نے مطلع کیا کہ یہ تصویر جعلی اور فرضی ہے ـ میں نے فورا اسے ڈیلیٹ کیا، اس غلطی پر معافی بھی مانگی اور فیک اور اصلی دونوں تصویر کوایک ساتھ ٹوئیٹ بھی کیا ـ اس سہوا خطا کے پس پردہ فرقہ واریت کے فروغ کی نیت نہیں تھی؛ بلکہ فاشسٹ طاقتوں کے خلاف عوام متحد ہورہے ہیں یہ پیغام دینا ہمارا مقصد تھا ـ یقیناً جو لوگ فیک نیوز، جعلی تصویر وغیرہ کو ایکسپوز (بے نقاب) کرنے کے مستحسن عمل میں مصروف ہیں ان کو میرا سلام، میری دلی خواہش ہے کہ ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہو تاکہ حقائق کو اجاگر کیا جاسکے ـ  (ختم شد)  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق