نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

منو وادیوں کا بھانڈا پھوڑ!








منو وادیوں کا بھانڈا پھوڑ!
ہندی سے ترجمہ اور ماخوذ
ایک مظلوم دلت کی تحریر 
ترجمہ نگار: افتخار رحمانی 
منوادي لوگ اپنے نام نہاد خدا کے ستائش کرتے رہتے ہیں اوراپنے نام نہاد خدا مثلا وشنو، شنکر، برہما، درگا، پاروتی وغیرہ کے مندرجہ ذیل خصوصیات اور طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں: -
(1) منو واديوں کا نام نہاد بھگوان بہت طاقت والا ہے؛ یعنی وہ سب کچھ کرنے کے قابل ہے ـ 
(2) منو واديوں کا نام نہاد خدا ہر جگہ ہے؛ یعنی وہ ہر جگہ اور ہر چیز میں واقع ہے،
(3) منواديو کا نام نہاد خدا دانا  ہے؛ یعنی وہ ماضی، حال اور مستقبل کی ہر بات اور  ہر چیز  کو جانتا ہے،
(4) کائنات میں جو کچھ بھی واقع ہو ہوتا ہے وہ منو وادیوں  کے نام نہاد خدا کی مرضی سے ہی واقع ہوتا ہے.
(5) تمام انسان منواديو کے اسی نام نہاد خدا کی اولاد ہیں، (مترجم اس عقیدہ سے بالاتر ہے، تمام انسان ایک خدا کی اولاد نہیں، بلکہ مخلوق ہے)  
ان خصوصیات اور اختیارات پر ہر منوادي بھکت یقین کرتا ہے.
جب اس دنیا میں کسی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو مندرجہ ذیل سوال اٹھتے ہیں: -
(1) جب منو وادیوں کا نام نہاد خدا ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ منو وادیوں  کے نام نہاد بھگوان کو جنسی زیادتی کا پہلے سے علم تھا؟
(2) اگر منو وادیوں کا نام نہاد بھگوان عظیم قدرت والا ہے تو اس نے اس عورت سے ہو رہے عصمت دری کو روکا کیوں نہیں؟
(3) اگر منو وادیوں  کا نام نہاد خدا ہر جگہ ہے تو کیا وہ عصمت دری کے وقت جائے وقوعہ پر بھی موجود نہیں تھا؟ 
(4) منو وادیوں کا نام نہاد خدا ہر جگہ ہونے کی وجہ سے کیا اس عورت میں بھی موجود نہیں ہو گا جس کی عصمت دری ہوئی اور کیا اس مجرم مرد میں بھی موجود نہیں ہو گا جس نے عصمت دری کی؟ 
(5) جب دنیا میں ہر چیز منو وادیوں کے نام نہاد خدا کی مرضی سے ہوتی ہے اور بغیر منو وادیوں کے نام نہاد خدا کی اجازت کے ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ​​تو کیا اس عورت کی عصمت دری ہونا بھی منواديو کے نام نہاد خدا کی مرضی تھی؟
(6) جب تمام انسان منو وادیوں  کے نام نہاد خدا کی ہی اولاد (مخلوق)  ہیں تو پھر منو وادیوں  کے نام نہاد خدا نے یہ کیوں خواہش کی کہ اس کی ایک اولاد اس کی دوسری اولاد کا ریپ کرے؟
ان سوالات کے جواب منو وادیوں  کو دینے ہیں ـ 
اگر منوادي لوگ مندرجہ ذیل جواب دیتے ہیں تو انہیں پہلے غور کر لینا چاہیے: -
(1) اگر عورت کا عصمت دری ہونے کا پیشگی علم منواديو کے نام نہاد خدا کو نہیں تھا تو اس کا نتیجہ ہوگا کہ منواديو کا نام نہاد خدا قدرت والا اور ہر جگہ حاضر و ناظر  نہیں ہےـ (2) اگر منو وادیوں  کا نام نہاد خدا اس مذکورہ عصمت دری کو روک نہیں پایا تو اس کا مطلب ہوا کہ منو وادیوں کا نام نہاد خدا عظیم طاقت و قدرت والا نہیں ہے ـ 
(3) اگر منو وادیوں  کے نام نہاد خدا کی ایک اولاد  (مخلوق) مجرم بن کر اس کی دوسری اولاد (مخلوق)  کی عصمت دری کرتی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ منو وادیوں  کا نام نہاد خدا اچھا سرپرست (Parent) نہیں ہے ـ 
(4) اگر منو وادیوں  کا نام نہاد خدا جرائم کو نہیں روک سکتا تو ایسے کمزور اور لاغر (शक्तीहीन)  خدا کی عبادت کیوں کی جاتی ہے؟
(5) اگر منو وادیوں  کا نام نہاد خدا صرف اپنے بھکتوں پر ہی فضل اور احسان کرتا ہے تو وہ ایک مخصوص طبقہ  کے مفاد پرست قائد  سے زیادہ کچھ نہیں جو صرف اپنے طبقہ کا مفاد ہی سوچتا ہے اور صرف اسی کی مدد کرتا ہے جو اس کی چاپلوسی کرتا ہے ـ 
(6) کچھ منوادي لوگ دلیل دیتے ہیں کہ نام نہاد خدا نے دنیا کی تخلیق کی اور پھر کوئی مداخلت کئے بغیر اس کے خود ترقی کرنے کے لیے چھوڑ دیا. یہ تو اس طرح ہوا کہ کسی نے پہلے اپنی اولاد پیدا کی پھر اس کے پرورش کی ذمہ داری نہ اٹھاتے ہوئے اسے سڑکوں پر پلنے کے لئے چھوڑ دیا، تب ایسے بے رحم نام نہاد خدا کی عبادت کیوں کی جائے؟
ان سوالات کے جوابات منو وادیوں کو دینے ہیں اور مظلوم کو ان سوالات پر غور کرکے نام نہاد ہندومت یعنی مبینہ منوادي سازش کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو جانا چاہیے ـ 
"تعلیم یافتہ بنو، منظم رہو، جدوجہد کرو!"

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کلام شاعر : حضرت فضیل احمد ناصری عنبر

 فضیل  احمد ناصری ملک کے حالات پر غمگین ایک   نظم  ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو؟ جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم جیسے کوئی 'حسیں' دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی تم نے جنت سے کشمیر

عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری

قسط اول  عہد ِ نوکے حالی : مولانا فضیل احمد ناصری  خامہ بر دوش : افتخاررحمانی ، دہلی حالی پوری قوم کو توحید وایمان کی تعلیم ، اشعار میں نئے معانی و مطالب کے اظہار ، قوم کی فکر ، ملک سے سچی محبت کا درس اور شاعری کو ایک نئی رخ دینے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے ، ان کی سوچ و فکر کا دائرہ کار وسیع تر تھا ان کا ایمان تھا کہ اگر پوری قو م میں بیداری آ جائے تو نہ یہ کہ صر ف قوم کا بھلا ہو گا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس ملک کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ حالی چونکہ نانیہال سے سادات سے تعلق رکھتے تھے تو دادھیال سے انصاری الاصل تھے۔ ان کے آبا و اجداد قوم کے امام و پیشو اتھے ؛ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ قوم کو بیداری کی تعلیم دی اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بھی تھا۔حالی کا مطمحِ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ قوم کو پستی سے نکال کر عظمت رفتہ کی مسند و کرسی پر جلوہ آرا کردیں ؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، گرچہ قدرت کی صناعی ” مسدس حالی “ منصہ شہود پر لے آئی ،مگر قوم دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی ،حتی کہ وہ دن بھی آیا جب یہی فاتح و غالب کی نسلیں دو خونیں لکیروں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ جو کل تک شیر و ش

’اب اور کتنے انظر...................!‘

’اب اور کتنے انظر...................!‘ برجستہ: افتخاررحمانی      گذشتہ تحریر میں راقم نے اس نکتہ کی وضاحت کی تھی کہ بھارتی میڈیا”درباری رقاصہ کا گھونگرو“بن گیاہے، ہم ہی صرف ا س کا اعادہ نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارے قارئین بھی سمجھ رہے ہیں، چونکہ ہمارا حلقہ محدود ہے؛ لیکن ملک میں بسنے والے ایک ارب کی آبادی میں 50فیصدی  بھی اس ”مکروہ عمل“ کا ادراک کر رہے ہیں، تاہم وہ داخلی غیظ و جبر کے سوا کسی اور شی کے اظہار پر قادر نہیں ہیں؛کیونکہ اس پچاس فیصدی میں تیس فیصدی وہ افراد بھی ہیں جو ”نادیدہ لہروں“ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں، شاید ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے اس ”رقص شرر“کے باعث ملک میں ترقی اور ”وکاس“اہل چشم و دیدہ تو کجا چشم ودیدہ سے محروم بھی محسوس کریں گے۔ یہ ان کی خود فریبی اور”طلسمِ زعفران“کی معجزنمائی ہے ورنہ حقیقت اس سے سوا ہے۔ ہم کل بھی 16مئی 2014کی شام میں کہہ چکے تھے اور تین سال گذر جانے کے بعد اب بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ ”وکاس“ کوئی لاہوتی مخلوق نہیں وہ تو بھارت کی جمہوری فضا میں پرواز کرے گا بس اس شرط کے ساتھ کہ اس کے تقاضوں کو ”بھارتی ضمیر“ کے ساتھ پورا کیا جائے۔ان لوگوں کو ”رق